موضوع زیر بحث کے اعتبار سے اصل غور طلب مسئلہ یہ ہے کہ ہجرت سے قبل مصر میں آل فرعون کے ساتھ بھی ’’تِسْعَ اٰیٰتٍ بَیِّنٰتٍ‘‘ کا مشاہدہ بچشم سر کر چکنے اور پھر سفر ہجرت کے دوران متذکرہ بالا جملہ آیات و معجزات کا مشاہدہ ہی نہیں تجربہ کر چکنے کے باوجود بنی اسرائیل نے اللہ کے جلیل القدر پیغمبر ؑ اور اپنے عظیم نجات دہندہ کے ساتھ مسلسل نافرمانی اور اذیت رسانی کا وہ طرز عمل کیوں اختیار کیا، جس پر رسول ؑ کو یہ فریاد کرنی پڑی کہ: 

یٰقَوۡمِ لِمَ تُؤۡذُوۡنَنِیۡ وَ قَدۡ تَّعۡلَمُوۡنَ اَنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ ؕ 
(الصف: ۵
’’… اے میری قوم کے لوگو! مجھے کیوں اذیت پہنچا رہے ہو درآں حالیکہ تم خوب جانتے ہو کہ میں تمہاری جانب اللہ کا رسول ہوں.‘‘

اس لیے کہ اُن کے اسی طرز عمل کا نقطہ ٔعروج ہے وہ واقعہ جس کا آغاز میں ذکر ہو چکا ہے، یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تمام تر ترغیب و تحریض اور فرمائش و فہمائش کے باوجود’’قتال فی سبیل اللہ‘‘سے اعراض و انکار. جس کی پاداش میں اُن پر چالیس سالہ صحرا نوردی مسلط کر دی گئی چنانچہ وہ چالیس برس بیابان سینا ہی میں 
(In The Wilderness Of Sina) بھٹکتے رہے اور ’’یَتِیْھُوْنَ فِی الْاَرْضِ‘‘ کی مناسبت سے اُس کا نام ہی ’’صحرائے تیہہ‘‘ پڑ گیا. پھر اِسی مسئلے کا تتمہ یا تکملہ ہے یہ سوال کہ وہ کیا چیز تھی جس نے اُسی قوم کی اگلی نسل میں اتنی ہمت و عزیمت پیدا کر دی اور اُس کی اِس درجہ کا یا پلٹ کر رکھ دی کہ اس کے باوجود کہ وہ حضرت موسیٰ اور ہارون علیہم السلامجیسے جلیل القدر پیغمبروں کی صحبت و معیت سے محروم ہو چکے تھے اور ان کی سربراہی ورہنمائی کے فرائض وہ شخص ادا کر رہا تھا، جس کی نبوت و رسالت کا کوئی صریح ثبوت کم از کم قرآن حکیم میں موجود نہیں ہے. (یعنی حضرت یوشع بن نونؒ ) تاہم انہوں نے اس کی سرکردگی میں جہاد و قتال فی سبیل اللہ کے جملہ مراحل بحسن و خوبی طے کیے. چنانچہ وہ ارضِ مقدس جو چالیس برس تک کے لیے ان پر حرام کر دی گئی تھی، اُن کے ہاتھوں فتح ہوئی اور ان کے دورِ غربت کا خاتمہ اور دورِ عروج کا آغاز ہو گیا؟

ظاہر ہے کہ اس سوال کا صرف ایک ہی جواب ممکن ہے اور وہ یہ کہ جو لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی معیت میں مصر سے نکلے تھے، وہ نسلاً بعد نسلٍ غلامی کی چکی میں پستے رہنے کے باعث بزدل اور بودے ہو چکے تھے. چنانچہ ایک جانب اُن میں سے اکثر کی غیرت و حمیت کچلی جا چکی تھی اور دوسری جانب وہ عزیمت ومقاومت سی عاری اور تہی دست ہو چکے تھے، اور ماضیٔ قریب کی شدید ترین تعذیب (Persecution) نے تو گویا اُن کے حوصلے اور قوتِ ارادی کا جنازہ نکال دیا تھا، چنانچہ وہ مصر میں شدید ترین محنت و مشقت تو کرتے تھے، لیکن خود اپنے عزم و ارادے کی اساس پر نہیں بلکہ آل ِ فرعون کے کوڑوں اور ڈنڈوں کے خوف سے. اِس کے برعکس بنی اسرائیل کی جس نسل نے جہاد و قتال کی پُرعزیمت راہ اختیار کی وہ، وہ تھی جو آزادی کی فضا میں پیدا ہوئی اور اسی فضا میں پلی بڑھی اور پروان چڑھی، چنانچہ اُن میں غیرت وحمیت کے اوصاف بھی پیدا ہوئے اور عزتِ نفس اور خودداری کے احساسات بھی. اور اس سونے پر سہاگے کا کام کیا صحرا کی پُرصعوبت زندگی نے جس سے اُن میں سخت کوشی اور جفاکشی کی عادت پیدا ہوئی اور بقول علامہ اقبال مرحوم ؎

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی یا بندۂ صحرائی یا مرد کہستانی