اِس اعتبار سے بنظر غائر دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ وسطی پنجاب اور اس سے ملحقہ صوبہ سرحد کے علاقے کے مسلمان ہندوستان کے دوسرے علاقوں کے مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ ہی بدقسمت اور مظلوم ثابت ہوئے، اس لیے کہ اُن پر انگریزوں کی غلامی سے متصلاً قبل، اوّلاً سکھوں کی دہشت گردی، لوٹ مار اور قتل و غارت گری اور بعد ازاں باضابطہ ’’سکھا شاہی‘‘ مسلط رہی جو یقینا ’’یَسُوْمُوْنَکُمْ سُوْئَ الْعَذَابِ‘‘ کی بدترین صورت تھی. نتیجتاً ایک طرف تو اُن کی خودی اور عزتِ نفس زیادہ ہی پامال ہوئی اور اُن کی غیرت و حمیت کچھ زیادہ ہی مجروح ہوئی! اور دوسری طرف انہوں نے انگریز کی آمد کو غنیمت جانا اور اپنی نجات کا ذریعہ سمجھا اور اس طرح ؏ 
’’کہ خود نخچیر کے دِل میں ہو پیدا ذوق نخچیری!‘‘
کی صورت پیدا ہوگئی. یہی وجہ ہے کہ اِس علاقے کے مسلمانوں نے اوّلاً ۱۸۵۷ء میں انگریز کی مدد کی اور اُن ہی کی مدد سے انگریزوں نے دوبارہ دہلی کو فتح کیا اور ثانیاً یہاں کے ’’اعلیٰ‘‘ طبقات نے انگریز کے ’’ثقافتی انقلاب‘‘ کا دوسرے علاقوں کے مسلمانوں کی بہ نسبت زیادہ ہی دلی آمادگی سے خیر مقدم کیا اور ان کے دِلوں میں انگریز کے خلاف نفرت و بغاوت کے وہ جذبات کبھی پیدا نہ ہو سکے جو بقیہ ہندوستان کے اُن مسلمانوں کے دِلوں 
میں پیدا ہوئے جن سے انگریز نے براہِ راست حکومت چھینی تھی.