مزید غور کیا جائے تو نظر آتا ہے کہ ہندوستان کی مسلمان قوم کا المیہ دوہرا تھا. اس لیے کہ جہاں ایک جانب انگریز کی غلامی کے نتیجے میں اُن کی غیرت و حمیت، ہمت و عزیمت اور خودی و عزتِ نفس کے سوتے خشک ہو رہے تھے، وہاں دوسری جانب اُن ابنائے وطن کے دِلوں میں اُن کے خلاف نفرت و انتقام اور بغض و عداوت کے جذبات پروان چڑھ رہے تھے جن پر اُنہوں نے ہزار سال سے زائد عرصہ تک حکومت کی تھی. نفرت وانتقام کے اس جذبہ کو اوّلین شہ تو اگرچہ بیرونی استعمار ہی سے ملی، تھی لیکن بعدازاں یہ خود ایک تناور درخت کی صورت اختیار کر گیا تھا اور اس کی جڑیں زمین میں بہت گہری اُتر گئی تھیں اور آزادی ہند سے متصلاً قبل تو یہ جذبۂ نفرت وا نتقام ایک خوفناک عفریت کی مانند چنگھاڑتا ہوا بڑھتا نظر آرہا تھا. اس سب پر مستزادیہ کہ مسلمانانِ ہند اپنے ابناءِ وطن کے مقابلے میں تعداد کے اعتبار سے تو ایک تہائی تھے ہی، تعلیم و تنظیم اور سرمایہ و وسائل کے اعتبار سی بھی بہت پیچھے تھے. نتیجتاً ایک شدید خوف اور سراسمیگی کی حالت اُن پر طاری ہو گئی تھی.