ان حالات میں واقعہ یہ ہے کہ برصغیر میں بسنے والے مسلمانوں کی اکثریت کا بیک وقت انگریزوں کی بالفعل موجود اور ہندوؤں کی ممکنہ قابل حذر غلامی سے نجات پا کر ایک آزاد اور خود مختار ملک کا مالک بن جانا، اور دنیا کے نقشے پر وقت کی عظیم ترین مسلمان مملکت کا دفعتہ ظہور ہرگز ایک معجزے سے کم نہ تھا. اور یہ معجزہ بھی، جیسے کہ ہم انشاء اللہ بعد میں تفصیلاً واضح کریں گے صرف ایک ہی واقعہ کے معجزانہ ظہور کی حیثیت نہیں رکھتا، بلکہ بنی اسرائیل کی تاریخ کے متذکرہ بالا سلسلۂ معجزات کے مانند متعدد معجزات کا مجمؤعہ ہے.
آگے بڑھنے سے پہلے اِس سوال کا جواب بھی سامنے آ جانا چاہئے کہ یہ معجزہ کیوں رُونما ہوا؟
جن لوگوں کی نگاہیں ’’یَعۡلَمُوۡنَ ظَاہِرًا مِّنَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚۖ ‘‘ (الروم : ۷) کے مصداق صرف ’’ظاہر‘‘ تک ہی محدود رہتی ہیں اور جن کا غور و فکر حیاتِ دنیوی اور نظام کائنات گویا آفاق و انفس کے ضمن میں صرف مادی اسباب و علل اور ان کے نتائج و عواقب ہی تک محدود رہتا ہے، انہیں تو شاید یہ بہت دور کی کوڑی نظر آئے لیکن جو اس نظامِ عالم کے ’’باطن‘‘ سی بھی کسی قدر شناسا ہیں اوریہ جانتے ہیں کہ پورا سلسلۂ اسباب ایک مسبب الاسباب تبارک و تعالیٰ کے ارادہ و مشیت کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے، وہ اگر قرآن حکیم کی آیات بینات پر غور کریں تو اس حقیقت کو پا لیں گے کہ یہ اللہ عزوجل کی سنت ثابتہ رہی ہے کہ جب کوئی فرد اور بالخصوص کوئی قوم اللہ سے کوئی وعدہ کرتے ہوئے کسی چیز کا سوال کرتی ہے تو اللہ اُسے وہ چیز عطا فرما کر ایک موقع ضرور عنایت فرماتا ہے کہ وہ اپنے قول کی صداقت اور وعدے کی سچائی ثابت کرسکے.
قومی واجتماعی سطح پر تو اس سنت اللہ کی جانب واضح اشارہ تاریخ بنی اسرائیل کے ضمن ہی میں موجود ہے. چنانچہ سورۂ اعراف کی آیت نمبر ۱۲۹ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ قول نقل ہوا ہے:
عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّہۡلِکَ عَدُوَّکُمۡ وَ یَسۡتَخۡلِفَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ فَیَنۡظُرَ کَیۡفَ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۲۹﴾٪
’’… قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تمہیں زمین میں خلافت عطا فرما دے اور پھر دیکھے کہ تم کیا روش اختیار کرتے ہو.‘‘
اور شخصی و انفرادی سطح پر منافقین مدینہ کے ایک گروہ کے رویے کے ضمن میں اس سنت اللہ کی جھلک نظر آتی ہے. چنانچہ سورۂ توبہ کی آیات ۷۵،۷۶ میں مذکور ہے:
وَمِنْھُمْ مَنْ عَاھَدَ اللّٰہُ لَئِنْ اٰتٰنَا مِنْ فضْلِہٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَکُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ. فَلَمَّا اٰتٰھُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ بَخِلُوْا بِہٖ وَتَوَالَّوْا وَّھُمْ مُعْرِضُوْنَ
’’… اُن میں سے بعض وہ بھی ہیں، جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر وہ ہمیں اپنے فضل سے (دولت) عطا فرمائے گا تو ہم خوب خیرات کریں گے اور لازماً نیک لوگوں میں سے ہو جائیں گے. پھر جب اللہ نے اُن کو اپنے فضل سے نوازا تو انہوں نے اس میں بخل کیا اور رُخ موڑ لیا پہلو تہی کرتے ہوئے.
خوب اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ قیامِ پاکستان کا معجزہ بھی اسی سنت اللہ کے تحت ظاہر ہوا. اِس لیے کہ ہر شخص جانتا ہے کہ تحریک پاکستان کے عوامی اور جذباتی دَور میں جو ۱۹۴۵ء تا ۱۹۴۷ء دو سالوں پر مشتمل ہے پورا برصغیر ازدرّۂ خیبر تار اس کماری اور از مکران تا چاٹگام اس نعرے سے گونج اُٹھا تھا کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا ؟ لا الٰہ الّا اللہ‘‘ اور تحریک کے زعماء و عمائد کے صریح اور ببانگ دہل اعلانات و بیانات پر مستزاد جمعہ اور عیدین کے عظیم اجتماعات میں کروڑوں مسلمانوں نے گڑگڑا گڑگڑا کر دعائیں کی تھیں اور عہدکیا تھ اکہ اے اللہ! ہم اس دوہری غلامی سے نجات پا کر صرف تیرے بندے بن کر رہیں گے اور تیرے اور تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے دین پر عمل پیر اہوں گے. واقعہ یہ ہے کہ یہ اسی عہد و میثاق کا نتیجہ تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے حالات کا رُخ بدل گیا، کایا پلٹ کر رہ گئی اور زنجیریں کٹتی چلی گئیں. بقول اقبال ؎
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں!