ملت اسلامیہ پاکستان کا آزادی کے بعد کا طرزِ عمل بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کے طرزِ عمل سے بہت مشابہ و مماثل ہے. نتیجتاً جس صورتِ حال سے وہ دو چار ہوئے اور جس کیفیت میں وہ تاحال مبتلا ہیں وہ بھی نہ صرف بنی اسرائیل کے مشابہ و مماثل بلکہ بعض اعتبارات سے اُن سے بھی بدتر اور مایوس کن ہے.
موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کی آزمائش تو بڑی کڑی تھی ا ِس لیے کہ انہیں ’’ملک‘‘ کے حصول کے لیے جنگ کی دعوت دی گئی تھی، جس پر اُن کی کئی سو سالہ غلامی کے اثرات کا ظہور ’’بزدلی‘‘ کی صورت میں ہوا. یہاں بغیر جنگ و قتال دو وسیع و عریض خطوں پر مشتمل ایک عظیم الشان مملکت عطا فرما دی گئی تھی اور اب صرف اپنے قول کی صداقت اور وعدہ کی سچائی ثابت کرنے کی ضرورت تھی، لیکن افسوس کہ یہاں دو صد سالہ غلامی کے اثرات کا ظہور ’’وعدہ خلافی‘‘ کی صورت میں ہوا اورملت اسلامیہ پاکستان بحیثیت مجموعی اپنی تمام دعاؤں اور التجاؤں اور درخواستوں اور عرضداشتوں کو بھلا کر اور کل عہد و میثاق اور قول و قرار کو فراموش کر کے آزادی کے مادی ثمرات اور دنیوی انعامات سمیٹنے کے ضمن میں تکاثر و تنافس اور مقابلہ ومسابقت کی دوڑ میں مگن ہی نہیں گم ہو کر رہ گئی. چنانچہ یہاں سزا بھی دوہری ملی.