ایک بے یقینی اور بے مقصدیت کے صحرائے تیہہ میں سرگردانی کی کیفیت جس کی شدت میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا اور تا حال ہو رہا ہے. یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ پاکستان دو لخت ہوا اور نہ صرف یہ کہمشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے علیحدہ ہوا، بلکہ اُس نے اپنا نام بھی تبدیل کر لیا اور اس طرح گویا اپنے تعارف و تشخص ہی کو بدل ڈالا اور اپنے ماضی سے کم از کم وقتی طور پر لاتعلقی اختیار کر لی اور یہ بھی اسی کا مظہر ہے کہ تاحال یہ دونوں خطے ملکی، قومی اور سیاسی و دستوری سطح پر عدم توازن اور عدمِ استحکام کا شکار ہیں اور فانی کے اس شعر کا مصداق کامل بنے ہوئے کہ ؎
ہم تو فانی جیتے جی وہ میت ہیں بے گوروکفن
غربت جس کو راس نہ آئی اور وطن بھی چھوٹ گیا!
یا اس شعر کا کہ ؎
سنی حکایت ہستی تو درمیان سے سنی
نہ ابتد ا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم!
جس کی منطقی انتہا یہ ہے کہ ؎
’’نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
رہا یہ وہم کہ ہم ہیں سو یہ بھی کیا معلوم!‘‘
چنانچہ ایک طرف اپنا حال یہ ہے کہ تحریک پاکستان کے اغراض و مقاصد ہی بحث و نزاع کا موضوع اور اختلاف و انتشار کا عنوان بنے ہوئے ہیں اور اس ضمن میں بڑوں کے پیدا کردہ انتشارِ ذہنی کا نتیجہ یہ ہے کہ نئی نسل حیران و پریشان ہے کہ ’’پاکستان کیوں معرضِ وجودمیں آیا تھا؟‘‘ اور آیا اُس قافلہ ملی کی کوئی منزل مقصود تھی بھی یا نہیں جس نے پاکستان حاصل کیا؟ بلکہ یہاں تک کہ آیا تقسیم ہند کا کوئی جواز تھا بھی کہ نہیں؟ نتیجتاً ملی و قومی سطح پر ہم اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں ما رہے ہیں، چنانچہ زعماء و قائدین اور اصحاب فکر و دانش تک کی سعی و جہد اور تگ وتاز کا حال اِس مصرعہ کا مصداق ہے کہ ؏
’’آہ! وہ تیرنیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف!‘‘تو بے چارے عوام کا کیا قصور اگر وہ اس شعر کے مصداق کامل بن گئے ہوں کہ ؎
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اِک تیز رَو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
اور اِس صورتِ حال کا نقطۂ عروج یہ ہے کہ اپنی عمر کے چالیسویں سال میں بھی ریاست کے دستورِ اساسی کے اعتبار سے ’’سلطنت خدادادپاکستان‘‘ ہنوز روز اوّل است‘‘ کا نقشہ پیش کر رہی ہے اور اِس شعر کی مصداق اتم ہے کہ ؎
اس سوچ میں کلیاں زرد ہوئیں اس فکر میں غنچے سوکھ گئے
آئین گلستان کیا ہوگا؟ دستورِ بہاراں کیا ہوگا؟
اور دوسری طرف اغیار پھبتیاں چست کر رہے ہیں. چنانچہ کوئی کہتا ہے کہ پاکستان تاحال کسی تشخص کی تلاش میں ہے، (۱) (۱)"Pakistan is Still in Search of an Identity" او ر کوئی فیصلہ صادر فرما دیتا ہے کہ پاکستان اپنا جواز کھو چکا ہے،(۱) اور کوئی اس سے بھی آگے بڑھ کر فیصلہ کن انداز میں پیشگوئی کر دیتا ہے کہ پاکستان ٹوٹنے ہی والا ہے اور اس کے حصے بخرے ہونے ہی والے ہیں. (۲)