’’نفاقِ عملی‘‘ کی یہ کیفیت جس کا ہلکا سا نقشہ سطور بالا میں کھینچا گیا ہے، براہِ راست نتیجہ ہے اللہ کے ساتھ کیے ہوئے عہد کی خلاف ورزی کا. چنانچہ اس سے قبل سورۂ توبہ کی آیات ۷۵،۷۶ کے حوالے سے نفاق کی جس خاص قسم کا ذکر ہوا ہے، اُس کے بارے میں آیت نمبر ۷۷ میں صراحت موجود ہے کہ یہ بدعہدی کی سزا کے طور پر وجود میں آیا تھا. ارشاد ہوتا ہے:

فَاَعْقَبَھُمْ نِفَاقًا فِیْ قُلُوْبِھِمْ اِلٰی یَوْمِ یَلْقَوْنَہٗ بِمَا اَخْلَفُوْا اللّٰہَ مَا وَعَدُوْہُ وَبِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ ؕ (توبہ) 
’’… تو اللہ نے سزا کے طور پر اُن کے دلوں میں نفاق پیدا کر دیا اُس دن تک کے لیے جب وہ اس کے حضور حاضر ہوں گے، یہ سبب اس کے کہ انہوں نے اللہ سے جو وعدہ کیا تھا اُس کی خلاف ورزی کی اور بوجہ اس جھوٹ کے جووہ بولتے تھے.‘‘

اس آیۂ مبارکہ میں ایک لرزہ طاری کر دینے والی وعید بھی ہے کہ ’’یہ نفاق اب اس دن تک قائم رہے گا جس دن یہ لوگ اللہ کے حضور میں پیش ہوں گے.‘‘ اس پر قیاس کرتے ہوئے ملت ِاسلامیہ پاکستان کے مستقبل کے بارے میں یاس اور نا اُمیدی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے نگاہوں کے سامنے چھا جاتے ہیں اور اس ضمن میں اس سے بھی بڑھ کر لرزہ انگیز ہے اسی سورۂ مبارکہ کی آیت نمبر۱۱۰، 
وَھِیَ ھٰذِہٖ: 
لَا یَزَالُ بُنۡیَانُہُمُ الَّذِیۡ بَنَوۡا رِیۡبَۃً فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ اِلَّاۤ اَنۡ تَقَطَّعَ قُلُوۡبُہُمۡ ؕ 
’’… (نفاق کی) جو عمارت ان لوگوں نے تعمیر کر لی ہے اب یہ ان کے دلوں میں شکوک و شبہات کی صورت میں ہمیشہ برقرار رہے گی. الّا یہ کہ اُن کے دل (خود) ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں.‘‘
اور اس سے ذہن بے اختیار منتقل ہو جاتا ہے اُن متذکرہ بالا پیشگوئیوں کی طرف جو پاکستان کے مستقبل کے بارے میں دُنیا کے بہت سے سیاسی تجزیہ نگار کر رہے ہیں کہ یہ اپنی یک جہتی اور سالمیت کو برقرار نہیں رکھ سکے گا اور مستقبل قریب میں مزید حصے بخرے ہونے کے عمل 
(Balkanisation) سے دو چار ہو جائے گا. 

اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اَعِذْنَا مِنْ ذٰلِکَ 

’’اے اللہ! اے ہمارے رب! ہمیں اس انجام سے بچا اور اپنی پناہ میں رکھ.‘‘

الغرض، بے یقینی اور بے مقصدیت کے دھندلکوں پر انفرادی اور اجتماعی اخلاق کے اس دیوالہ پن اور نفاقِ عمل کے گھٹا ٹوپ اندھیروں نے بالکل 
’’ظُلُمٰتٌ بَعْضُھَا فَوْقَ بَعْضٍ‘‘ (۱کی کیفیت (۱) سورۂ نور آیت نمبر ۴۰ ’’اندھیرے ہیں ایک دوسرے کے اُوپر تہ درتہ.‘‘ پیدا کر دی ہے اور ملک و ملت کے مستقبل کو نہایت تاریک بنا کر رکھ دیا ہے، اور حالات و واقعات کے اس ’’صغریٰ‘‘ کو قوموں کے عروج و زوال کے ضمن میں قدرت کے اٹل اُصولوں اور اسباب و علل اور عواقب ونتائج کے باہمی لزوم کے ’’کبریٰ‘‘ کے ساتھ جوڑ کر قیاس کیا جائے تو حاصل سوائے مایوسی اور نا اُمیدی کے اور کچھ نہیں بنتا اور حساب کتاب کے کسی بھی قاعدے سے اُمید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی.