دو باتیں اچانک یاد آئیں:
ایک یہ کہ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمۃ اللہ علیہ وقدس سرہٗ العزیز کے بعد جن علماءِ کرام کو پاک و ہند میں شہرت حاصل ہوئی، اُن میں سے جامع معقول ومنقول…… اور جامع شریعت و طریقت ہونے کے اعتبار سے اہم ترین اور منفرد ہستی، اعنی مولانا سید مناظر احسن گیلانی ؒ نے اپنی یگانۂ روزگار تالیف ’’النبی الخاتم‘‘ (صلی اللہ علیہ وسلم) میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں یومِ طائف کو ’’فیصلہ کن موڑ‘‘ 
(Turning Point) قرار دیا ہے. کیا عجب کہ اِس تحریر کے اِس سرزمین پر سپرد قلم کیے جانے کے پس پردہ بھی کوئی راز ہو. وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ (البقرہ: ۲۱۶
’’…… اور اللہ (ہر چیز) جانتا ہے جب کہ تم (کچھ بھی) نہیں جانتے.‘‘

دوسری یہ کہ آج سے ٹھیک بیس سال قبل نومبر ۱۹۶۵ء میں والد محترم مرحوم کے انتقال (بتاریخ ۱۱/نومبر) سے پیدا شدہ رنج اور صدمے سے نڈھال ہو کر طبیعت کی بحالی کے لیے راقم نے وادیٔ کاغان کا سفر اختیار تھا. وہاں سے واپسی پر راقم ایبٹ آباد میں اپنے ایک عزیز کے مکان پر مقیم تھا کہ اچانک خیال آیا کہ آج ۲۶/نومبر ہے گویا بڑے بھائی صاحب کی اُنتالیسویں سالگرہ یا عمرفانی کے چالیسویں سال کا پہلا دن! اس پر ذہن بے اختیار سورۂ احقاف کی محولہ بالا آیت نمبر ۱۵ کی جانب منتقل ہوا اور میں نے بھائی صاحب کے نام وہیں سے ایک خط ارسال کیا، جس میں اِس آیت مبارکہ کو ’’ہدیہ اخلاص‘‘ کے طور پر پیش کیا. (بعد ازاں میں نے اِس آیت مبارکہ کی خوبصورت کتابت کرائی اور اسے ’’میثاق‘‘ میں بھی ایک سے زائد بار شائع کیا اور بہت سے رفقاء واحباب کو بھی جو چالیس سال کی عمر کے لگ بھگ ہوتے تھے، ہدیتہ پیش کیا).آج ٹھیک بیس سال بعد راقم اس آیت مبارکہ کو ملت اسلامیہ پاکستان کی خدمت میں اُس کی عمر کے چالیسویں سال کے آغاز کے موقع پر پیش کر رہا ہے ؏ 
گر قبول افتدز ہے عزوّ شرف!

خاکسار اسرار احمد عفی عنہ
طائف، ۲/صفر المظفر ۱۴۰۶ھ