سب سے پہلی تلخ حقیقت جو سامنے آتی ہے وہ یہ کہ وہ پاکستان جو ۴۷ء میں عالم وجود میں آیا تھا اب کہاں ہے؟ اُس نے تو چودہ سال قبل داستانِ پارینہ کی صورت اختیار کر لی تھی اور اب اُسے(Pakistan That Was!) کے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے. تو اِس ’’جوتھا نہیں ہے‘‘ پر ’’جو ہے نہ ہو گا!‘‘ کو کس دلیل سے بعید از قیاس قرار دیا جا سکتا ہے؟(۱)

یاد کیجئے کہ سقوطِ مشرقی پاکستان کے سانحہ پر صرف ملت اسلامیہ پاکستان ہی نہیں پورا عالم اسلام ہل کر رہ گیا تھا اور جہاں پوری امت مسلمہ پر سکتہ سا طاری ہو گیا تھا، وہاں لاکھوں انسان دھاڑیں مار مار کر روئے تھے. یہاں تک کہ حرمین شریفین کی فضا لوگوں کی آہ و بکا اور نالہ و شیون سے گونج اُٹھی تھی. اس لیے کہ اُس موقع پر صرف یہی نہیں ہوا تھا کہ مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے علیحدہ ہو گیا تھا، اگر بات صرف اتنی ہوتی تو اتنا عظیم صدمہ نہ ہوتا. بلکہ اس علیحدگی کے جلو میں اُس بدترین شکست کا کلنک کا ٹیکہ ملت اسلامیہ پاکستان کی پیشانی پر لگا تھا جسے تاریخ عالم کی عظیم ترین ہزیمتوں میں شمار کیا جا سکتا ہے. واقعہ یہ ہے کہ بیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں سلطنت عثمانیہ کے خاتمے، خلافت کی منسوخی اور عالم عرب کے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اغیار کے غلبہ و تسلط میں جکڑے جانے کے جو کچوکے امت مرحومہ کو لگے تھے، اُس کے دردوالم میں صدی کے وسطی حصے میں مختلف ملکوں میں آزادی کی تحریکوں کی کامیابی سے کچھ کمی آئی ہی تھی اور زخم کچھ مندمل ہوئے ہی تھے کہ ۶۷ء میں دُول عرب کی شرمناک 
(۱) ع ’’جو تھا نہیں ہے، جو ہے نہ ہو گا، یہی ہے ایک حرف محرمانہ‘‘ اقبال ؔ اور ذلت آمیز شکست اور پھر ۷۱ء میں سقوطِ مشرقی پاکستان کی صورت میں دُنیا کی عظیم ترین مسلمان مملکت کی رُسوا کن ہزیمت نے زخموں کو از سر نو تازہ ہی نہیں مزید گہرا کر دیا. اور ان زخموں پر نمک چھڑکنے کی خدمت ہمارے اپنے مشرقی پاکستانی بھائیوں نے اس طرح سر انجام دی کہ اپنا نام ہی بدل ڈالا اور ’’پاکستان‘‘ کے لیبل کو اپنی پیشانی سے اُتار کر خلیج بنگال میں پھینک دیا اور اس طرح اپنی کم از کم گذشتہ پینسٹھ سال کی تاریخ سے اعلان برأت کر دیا. (واضح رہے کہ مسلم لیگ کا قیام ۱۹۰۶ء میں ڈھاکہ ہی میں عمل میں آیا تھا) اور یہی نہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ’’بنگلہ دیش‘‘ کے پہلے وزیر خارجہ ڈاکٹر کمال حسین نے اعلان کیا کہ ’’اگرچہ آبادی کے لحاظ سے اِس وقت دُنیا میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد بنگلہ دیش میں ہے، لیکن ہم بنگلہ دیش کو ایک ’’مسلمان ملک‘‘ کہلوانا پسند نہیں کریں گے، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ! گویا کم از کم وقتی طو رپر تو پاکستان ہی سے نہیں اسلامی تشخص سے بھی بیزاری پیدا ہو گئی تھی.

حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زندگی کی بقا اور تسلسل کے لیے ذہن انسانی میں نسیان اور بھول کا حفاظتی آلہ 
(Safety Valve) لگا رکھا ہے. ورنہ ؎

یادِ ماضی عذاب ہے یا رب!
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا!!

کے مصداق زندگی اجیرن ہو جاتی، اس لیے کہ اب بھی جب کبھی خیال آ جاتا ہے کہ ہمارے ایک لاکھ کے لگ بھاگ کڑیل جوان اُن ہندوؤں کے قیدی بن گئے تھے جن پر ہم نے تقریباً ایک ہزار سال تک حکومت کی تھی تو دن کا چین اور رات کی نیند حرام ہو جاتی ہے. اور خصوصاً جب وہ نقشہ نگاہوں کے سامنے آتا ہے کہ پاکستان کی فوج اور دیگر سروسز کے جوانوں اور افسروں کو بالکل بھیڑوں اور بکریوں کی طرح ٹرکوں پر لاد کر مشرقی پاکستان سے وسطی ہند (مدھیہ پردیش) کے نظر بندی کے باڑوں 
(Concentration Camps) تک لے جایا گیا تھا تو دِل خون کے آنسو روتا ہے اور رنج و الم کی کوئی حد نہیں رہتی_____ایک مختصر سی جنگ کے نتیجے میں اتنی بڑی شکست اور خصوصاً اتنی ذلت و رُسوائی کی تاریخ انسانی میں کم از کم راقم کی معلومات کی حد تک تو صرف ایک ہی مثال ملتی ہے اور وہ ہے چھٹی صدی قبل مسیح میں بخت نصر کے ہاتھوںیروشلم کی تباہی اور اُس کے بعد چھ لاکھ یہودیوں کا بھیڑوں اور بکریوں کے گلوں کے مانند ہانک کر بابل لے جایا جانا، راقم کے نزدیک ہمارا المیہ اُس سے ہر گز کم نہیں، اس لیے کہ اُن چھ لاکھ میں عورتیں بھی تھیں، بچے بھی تھے اور بوڑھے بھی تھے اور جنگ کے قابل مردوں کی تعداد ہر گز ایک لاکھ سے متجاوز نہیں ہوسکتی.

بہرحال سقوطِ مشرقی پاکستان کا حادثہ فاجعۂ پاکستان کے عدم استحکام کا منہ بولتا ثبوت ہے اور آئندہ کے لیے ایک تازیانۂ عبرت کے طور پر مناسب ہے کہ اس کی یاد کبھی کبھی تازہ کر لی جائے! ؎

’’تازہ خواہی داشتن گرداغ ہائے سینہ را
گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را!‘‘