پاکستان کے عدم استحکام کا دوسرا جیتا جاگتا ثبوت یہ ہے کہ قمری تقویم کی رو سے اپنی عمر کی چالیسویں سال میں قدم رکھھ چکنے کے باوجود یہ ملک تاحال سر زمین بے آئین کی حیثیت رکھتا ہے اور ؏ 

خموشی گفتگو ہے، بے زبانی ہے زباں میری
کے مصداق بے آئینی ہی اِس کا آئین اور بے دستوری ہی اس کا دستور ہے.

راقم الحروف اپنے زمانہ طالب علمی میں جب کہ وہ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کا ناظم اعلیٰ تھا، ’’عزم‘‘ کے نام سے جمعیت کے سرکاری جریدے 
(Organ) کی ادارت کا ذمہ دار تھا. اس میں ایک صفحہ مستقل طور پر پاکستان کے زیر تدوین دستور کے بارے میں لکھے جانے والے مضامین اور خطوط کے لیے مخصوص کر دیا گیا تھا اور اُس کا عنوان اِس شعر کو بنایا گیا تھا کہ 
؎
’’اس سوچ میں کلیاں زرد ہوئیں، اس فکر میں غنچے سوکھ گئے
آئین گلستاں کیا ہو گا، دستورِ بہاراں کیا ہو گا‘‘

ذرا تصور کیجئے کہ یہ ۵۳.۵۲ء کی بات ہے گویا اِس پر پوری ثلث صدی بیت چکی ہے، لیکن آج بھی صورتِ حال جوں کی توں ہے اور اس میں ہرگز کوئی فرق واقع نہیں ہوا. اس لیے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد خان لیاقت علی خان مرحوم کی بی پی سی رپورٹ 
(Basic Principles Committee Report) کے رد ہو جانے کے بعد دستور سازی میں جو کئی سال کا وقفہ اور خلا رہا تھا وہ خدا خدا کر کے ۵۶ء میں ختم ہوا تھا، لیکن ۵۶ء کے دستور کو واقعتا دن کی روشنی دیکھنی نصیب ہی نہیں ہوئی. پھر ۶۲ء کا دستور آیا اور صرف چند سال قائم رہ کر ختم ہو گیا. اس کے بعد ۷۳ء میں مسٹر بھٹو نے واقعتا ایک عظیم کارنامہ سر انجام دیا تھا کہ دن رات محنت کر کے اس پارلیمنٹ کا اتفاق رائے (Consensus) حاصل کر لیا تھا جس کی نمائندہ حیثیت غیر متنازعہ تھی، یہاں تک کہ آج تک بھی اُس کے بارے میں اس پہلو سے کسی نے حرف زنی نہیں کی کہ جن انتخابات کے ذریعے وہ وجود میں آئی تھی وہ قابل اعتماد نہ تھے! لیکن افسوس کہ اوّلاً خود انہوں نے اس میں پے بہ پے ترامیم کر کے اُس کا حلیہ بگاڑ دیا اور اُس کی غیر متنازعہ حیثیت کو بھی مجروح کر دیا.

اور اِس سلسلے میں وہ اپنی مجرد عددی قوت (Brute Majority) کو جس بھونڈے طور پر بروئے کار لائے اُس نے واقعہ یہ ہے کہ اُن کی اپنی حیثیت کو شدید نقصان پہنچایا. اور پھر ۷۷ء کے مارشل لاء نے اُسے اوّلاً ساڑھے آٹھ سال تک معطل رکھا اور پھر ترامیم کے ذریعے اُس کے پورے نقشے ہی کو بدلکر رکھ دیا. اور اگرچہ حال ہی میں اُس پر طویل بحث و مباحثہ اور گفت و شنید اور ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ (Give and take) کے اُصول پر سمجھوتے کے بعد پارلیمنٹ سے مہر تصدیق ثبت کرالی ہے، لیکن کون نہیں جانتا کہ اس پارلیمنٹ کی حیثیت ہر گز غیر متنازعہ نہیں ہے. اور مارشل لاء اُٹھنے کی دیر ہے کہ اس کے ضمن میں پورا بغچہ اختلاف و انتشار (Pandora`s Box) ایک دم کھل جائے گا اور آزادانہ تصادم و کشمکش (Free For All) کی وہ کیفیت دوبارہ پیدا ہو جائے گی جو ۷۰۶۹ء میں پیدا ہو چکی ہے اور پھر اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اِس صورت حال کا نتیجہ کیا برآمد ہو گا. اس لیے کہ اتنی بات تو ریکارڈ پر موجود ہے اور سب ہی کو معلوم ہے کہ ملک کی متعدد سیاسی جماعتوں اور اہم سیاسی شخصیتوں نے بارہا کہا ہے کہ اگر ایک بار ۷۳ء کا دستور ختم ہو گیا تو پھر دوبارہ پاکستان کا دستور کبھی نہ بن سکے گا. واللّٰہ اعلم!! واعاذنا اللہ من ذلک!!