سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ؏ ’’ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا!‘‘ کے مصداق اِس عدم استحکام کا سبب کیا ہے؟ میرے نزدیک اس کا ایک سبب اصلی اور بنیادی ہے، اور ثانوی درجے میں اِس اساسی سبب کے کچھ ثمرات و نتائج ہیں، جنہوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے.

اس کا اصل سبب یہ ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست کی حیثیت سے عالم وجودمیں آیا تھا، لیکن افسوس کہ اس میں بسنے والوں نے اِس کے وجود میں آنے کے فوراً بعد اُس نظریے ہی کو فراموش کر دیا. یہ بالکل ایسے ہے کہ کسی درخت کی جڑ سوکھ جائے اور اُسے پانی نہ دیا جائے، اس کے نتیجے میں وہ لازماً مرجھا جائے گا اُس کے پتے جھڑ جائیں گے، شاخیں سوکھ جائیں گی اور کچھ عرصے بعد اُس میں سے ایک سوکھے تنے کے سوا اور کچھ باقی نہ رہے گا. چنانچہ بعینہ یہی صورت حال پاکستان کو در پیش ہے.

اِس سے بھی آگے بڑھ کر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کا حصول برصغیر کی ملت اسلامیہ کے قافلۂ ملی کی اصلی اور آخری منزل نہیں بلکہ صرف پہلا ’’پڑاؤ تھا‘‘ اور اِس امر کی شدید ضرورت تھی کہ اِس کے قافلہ سالار اپنے شرکاء سفر کو پوری شدت سے یاد دلاتے رہتے کہ ؏ ’’چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی!‘‘ لیکن افسوس کہ اِس بدنصیب قافلے کے رہنماؤں کی اکثریت نے خود ہی پہلے پڑاؤ پر پہنچ کر اصل منزل کو فراموش کر دیا. چنانچہ جب خود رہنما ہی اُس پڑاؤ کو اصل منزل قرار دے کر محو استراحت ہو گئے تو عوام کا تو کہنا ہی کیا؟ اُن کی اکثریت نے بھی اگر ؏

’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘

کی عامیانہ شرح کو طرز زندگی بنا لیا تو اُن سے کیا گلہ؟ او ر کیسا شکوہ!

اِس اصل اور اساسی سبب کے نتیجے میں جب ذہنی و فکری انتشار، اخلاقی و عملی اختلال اور سیاسی و انتظامیبحران پیدا ہوا تو اوّلاً کچھ ہوشیار اور چالاک سرکاری ملازمین 
(Civil Servants) نے زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی اور جب اُس کے نتیجے میں

’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی!‘‘

کے مصداق انتشار و اختلال مزید بڑھ گیا، تو آخر کار ملک کے منظم ترین ادارے یعنی فوج نے عوام کو سیاسی اعتبار سے نابالغ اور سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں کو بدقماش اور آوارہ قرار دے کر ملک و ملت کی سرپرستی 
(Guardianship) کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اُٹھا لیا. یہ دوسری بات ہے کہ اِس سے بھی صورتحال میں کوئی بہتری تو نہ پیدا ہو سکتی تھی نہ ہوئی. لیکن اس کی کوکھ سے مزید پیچیدگیوں اور خرابیوں نے جنم لے لیا. جن میں سے سب سے بڑی اور خوفناک پیچیدگی یہ ہے کہ چونکہ پاکستان کی مسلح افواج کی ایک عظیم اکثریت ایک خاص علاقے سے تعلق رکھتی ہے، لہٰذا دوسرے علاقے کے لوگوں میں یہ احساس کچھ از خود اُبھرا اور کچھ ملک و ملت کے دشمنوں نے اُبھارا کہ ایک علاقے کے لوگ پورے پاکستان پر حکومت کر رہے ہیں. چنانچہ اوّلاً یہ احساس پوری شدت کے ساتھ مشرقی پاکستان میں پیدا ہوا اور اُس کے نتیجے میں ملک دولخت ہو گیا. بعدازاں یہی احساس ہے جس کی کوکھ سے اس بچے کھچے پاکستان میں سندھی، بلوچی، پختون فرنٹ نے جنم لیا ہے اور اگر خدانخواستہ ان ثانوی اثرات و نتائج سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کے ساتھ ساتھ جلد از جلد پاکستان میں ایک زور دار تحریک ایسی نہ اُبھری جو ؏ 

’’سوئے قطار می کشم ناقہ بے زمام را!‘‘

کے انداز میں اس بھولے اور بھٹکے ہوئے قافلے کو اپنی اصل منزل دوبارہ یاد دلا دے اور؏ 

’’ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا!‘‘

کی شان کے ساتھ ایک ’’ولولہ تازہ‘‘ اور ’’عزم نو‘‘ کے ساتھ دوبارہ سر گرم سفر کر دے تو اندیشہ ہے کہ کہیں بدخواہوں کی پیشین گوئیاں صحیح ثابت نہ ہو جائیں اور دشمنوں کے گھروں میں واقعتہً گھی کے چراغ نہ جلنے لگیں.

تو آیئے کہ غور کریں کہ:

پاکستان کی اصل جڑ اور بنیاد کیا ہے؟ اور اس کے استحکام کی بنیاد کون سی چیز بن سکتی ہے؟؟