ان دونوں حضرات کی ؏ ’’متفرق گردید رائے بوعلی بارائے من!‘‘ کے مصداق متفق علیہ بات اِس لیے بھی اہمیت اختیار کر گئی کہ ان دونوں کا تعلق متحدہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے سے تھا، مزید برآں اُسی کے صدر مقام ڈھاکہ کو مسلم لیگ کے ’’مولد‘‘ (جائے ولادت) کی حیثیت حاصل تھی اور وہیں مسلم لیگ نے نہ صرف یہ کہ ابتدائی نشوونما پائی تھی، بلکہ طویل عرصے تک حکومت بھی کی تھی. مزید برآں یہ صوبہ وہ تھا جو تقسیم ہند سے بہت قبل ایک بار صوبائی تقسیم کا تجربہ بھی کر چکا تھا. الغرض اُن دونوں حضرات کی بات ہر گز ایسی نہ تھی کہ نظر انداز کر دی جاتی. چنانچہ پاکستان کی نئی نسل نے بلا شبہ اِن حضرات کی بات کا اثر قبول کیا.
یہ دونوں بزرگ تو عرصہ ہوا اِس دُنیا سے رخصت ہو گئے. بدقسمتی سے گزشتہ دو تین برسوں کے دَوران دو اور بزرگ شخصیتوں کی جانب سے بھی اِس سے ملتی جلتی رائے سامنے آئی ہے. اگرچہ اِس بار جو لفظ استعمال ہوا وہ ’’معاشی‘‘ نہیں ’’سیاسی‘‘ ہے. چنانچہ پہلے میاں ممتاز محمد خان دولتانہ نے یہ رائے ظاہر کی کہ تحریک پاکستان ہرگز ایک مذہبی تحریک نہ تھی بلکہ خالص سیاسی تحریک تھی، اور جب اُن پر لے دے ہوئی تو انہوں نے جو وضاحتیں اور معذرتیں پیش کیں وہ بالکل ’’عذرِ گناہ بدتر از گناہ‘‘ کا مصداق تھیں. نتیجتاً جس قدر وہ وضاحتیں پیش کرتے گئے اتنے ہی دلدل میں مزید پھنستے چلے گئے. بعدازاں جناب سردار شوکت حیات خان صاحب سامنے آئے اور انہوں نے یہ فرما کر کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ ! ہرگز کوئی سنجیدہ اور سوچی سمجھی بات نہیں تھی، بلکہ یہ نعرہ تو چند چھوکروں نے ایجاد کیا تھا!‘‘ گویا بات ہی ختم کر دی.
کسی کو ان دونوں حضرات کی رائے خواہ کتنی ہی غلط نظر آئے، اِس حقیقت کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ دونوں تحریک پاکستان کے کارکنوں اور قائداعظم کے نوجوان ساتھیوں میں شامل تھے، اور فی الوقت دونوں ہی کا شمار موجودہ بچے کھچے پاکستان کے بزرگ ترین سیاستدانوں میں ہوتا ہے. مزید برآں دونوں کا تعلق اُس صوبے سے ہے جو موجودہ پاکستان میں ہر اعتبار سے عظیم ترین ہے! اِس صورتِ حال کا خوفناک ترین نتیجہ یہ نکلا کہ ؏ ’’شدپریشاں خوابِ من از کثرت تعبیرہا!‘‘ کے مصداق پاکستان کی نئی نسل شدید ذہنی و فکری انتظار (Confusion) کا شکار ہے اور اُسے نہ اپنے تشخص کا شعور حاصل ہو سکا ہے نہ کسی مقصد یا منزل ہی کا سراغ مل سکا ہے، اور اس کی حالت کم و بیش اُس مسافر کی سی ہے جو گھر سے تو کسی معین کام کے لیے کسی شہر کے سفر کے لیے چل پڑا ہو، لیکن اثنائے سفر میں کسی حادثے کے باعث اُس کی یادداشت زائل ہو جائے اور اب اُسے نہ یہ یاد رہے کہ میرا گھر کہاں ہے اور میں نے سفر کا آغا ز کہاں سے کیا تھا؟ اور نہ یہ یاد رہے کہ میں جا کہاں رہا ہوں اور وہاں مجھے کام کیا کرنا ہے؟
لہٰذا اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ پوری سنجیدگی اور زیادہ سے زیادہ حقیقت وواقعیت پسندانہ (Realistic) اور ممکنہ حد تک معروضانہ (Objective) انداز میں غور کیا جائے کہ قیام پاکستان کا اصل سبب کیا تھا؟ تحریک پاکستان کے اصل محرکات کیا تھے؟ اور وطنِ عزیز کی کوئی حقیقی اور واقعی جڑ بنیاد ہے بھی یا نہیں؟
اور اس جائزے اور تجزیے کے دوران ضرورت ہو گی کہ نہ حقائق کو مسخ کیا جائے، نہ کسی ’’آرزو مندانہ انداز فکر‘‘ (Wishful Thinking) کو دخل انداز ہونے کا موقع دیا جائے، نہ کسی شخصیت کی عظمت اور محبت و عقیدت کو حائل ہونے دیا جائے اور نہ کسی کی ناراضگی یارضا مندی کا لحاظ کیا جائے، بلکہ اصل حقائق کو جرأت و ہمت کے ساتھ خود بھی قبول کیا جائے اور پوری جرأت ِ رمذانہ کے ساتھ اُن کا ڈنکے کی چوٹ اظہار و اعلان بھی کیا جائے.
اس نہایت پیچیدہ اور اُلجھے ہوئے مسئلے کے حل کی آسان ترین صورت یہ ہے کہ پہلے اِس کی تین جداگانہ سطحوں (Levels) کا شعور حاصل کر لیا جائے اور پھر ہر سطح پر حقیقت کے جزوی ادر اک کے بعد حقیقت کلی کی جانب پیش قدمی کی جائے.
اس مسلے کی تین جداگانہ سطحوں کے لیے بہترین تمثیل زمین پر پانی کی تین مختلف سطحوں کی صورت میں موجود ہے. چنانچہ ایک پانی وہ ہے جو سطح زمین پر دریائوں اور ندی نالوں کی صورت میں بہہ رہا ہے. سب جانتے ہیں کہ وہ ظاہر و باہر پانی جو ہر انسان کو بچشم سر نظر آتا ہے یہی ہے. پانی کی دوسری سطح وہ ہے جہاں سے اُسے کنوؤں اور ہینڈ پمپوںوغیرہ کے ذریعے نکالا جاتا ہے اور اس کے سوتے کہیں تیس چالیس فٹ گہرائی پر چل رہے ہوتے ہیں، کہیں ستر اسی فٹ گہرائی پر اور کہیں اس سے بھی نیچے، اور ازمنہ قدیم سے ماضی قریب تک دریائوں اور ندیوں سے بعد اور فاصلے پر انہی زیر زمین سوتوں کا پانی بقائے حیات کا ذریعہ بنا رہا ہے. جب کہ پانی کی تیسری سطح وہ ہے جو سطح زمین سے کئی سو فٹ نیچے ہے اور جہاں سے زمانۂ حال میں پینے کے لیے صاف و شفاف پانی ٹیوب ویلوں کے ذریعے نکالاجاتا ہے.بالکل اِسی طرح پاکستان کی ’’ایجاد‘‘ یا ’’تکوین‘‘ (Genesis) کے اسباب یا محرکات کو بھی بالکل تین علیحدہ سطحوں (Levels) پر سمجھا جاسکتا ہے:
اِس کی پہلی اور نمایاں ترین سطح یہ ہے کہ ’’پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا‘‘ چنانچہ یہ ’’ظاہر و باہر‘‘حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں، بجز اس کے کہ کوئی سخت ڈھٹائی ہی پر اُتر آئے اور حقیقت واقعی کے انکار پر کمر کس لے. اس کی حیثیت اُس نوشتۂ دیوار (Writing On The Wall) کی ہے، جو ہر شخص کے سامنے رہتی ہو اور جس سے صرف نظر ممکن نہ ہو. یہی وجہ ہے کہ یہ بات پوری دنیا میں تسلیم کی جاتی ہے، قطع نظر اس سے کہ کسی کو پسند ہو یا نہ پسند!
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پورے برصغیر کے مسلمانوں کو ازدرۂ خیبر تاراس کماری اوزار مکران تا چٹاگانگ مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع کرنے والا نعرہ بہرصورت ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ! ہی تھا اور اس سے ہر گز کوئی فرق واقع نہیں ہوتا کہ اس کے الفاظ بزرگوں نے متعین کیے تھے یا نوجوانوں نے ترتیب دے لیے تھے.
پھر بات صرف ایک نعرے کی نہیں ہے بلکہ اُن واضح وغیرمبہم اور واشگاف وبرملا بیانات و اعلانات کی ہے، جن کے ذریعے پاکستان کے بانی و موسس اور تحریک پاکستان کے ’’قائداعظم‘‘ نے مسلمانوں کی قومیت کی اساس ’’مذہب‘‘ کو، پاکستان کی منزل ’’اسلام‘‘ کو اور پاکستان کا دستور ’’قرآن‘‘ کو قرار دیا تھا اور قیام پاکستان کا مقصد یہ بیان کیا تھا کہ ہم پاکستان کے ذریعے عہد حاضر میں اسلام کے اُصول حریت، مساوات اور اخوت کی جدید تفسیر اور عملی نمونہ پیش کرنا چاہتے ہیں. اِس حقیقت سے انکار کوئی نہایت ڈھیٹ شخص ہی کر سکتا ہے کہ ان اعلانات کے بغیر نہ مسلم لیگ ایک عوامی جماعت بن سکتی تھی، نہ برصغیر پاک و ہند کے طول و عرض میں بسنے والے مسلمان ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو سکتے تھے. یہ حقیقت اتنی ظاہر و باہر اور سطح زمین پر بہنے والے دریائوں اور ندیوں کے پانی کے مانند اتنی عیاں ہے کہ اس پر قلم و قرطاس کا مزید صرف تحصیل حاصل کے ذیل میں آئے گا.
تو اب آیئے دوسری سطح کی جانب جس کا صحیح تعین ایک سوال کی صورت میں کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ کہ ’’تحریک پاکستان کا اصل جذبہ محرکہ کیا تھا؟‘‘ ہر شخص یہ محسوس کرے گا کہ یہ سوال نہایت گہرا ہے اور اس کا جواب دینا آسان کام نہیں ہے. مزید برآں یہ کہ اِس سوال کے جواب میں پوری دیانت اور خلوص و اخلاص کے باوجود اختلاف کی بڑی گنجائش موجود ہے .
ان سطور کے عاجز و حقیر راقم کے نزدیک اِس سوال کا ایک منفی جواب تو بادنیٰ تامل سامنے آ سکتا ہے اور اس پر اتفاق (Consensus) بھی زیادہ مشکل نہیں ہے، البتہ تحریک پاکستان کے اصل محرک کی مثبت تعیین واقعتا آسان نہیں.
شاید بہت سے قارئین اِس پر چونک جائیں اور حیران ہوں کہ راقم بھی اُن لوگوں کی رائے کو درست سمجھتا ہے جن کے نزدیک تحریک پاکستان کا اصل عامل اور جذبۂ محرکہ ’’مذہبی‘‘ نہیں کچھ اور تھا. اِس ’’کچھ اور‘‘ پر تو گفتگو بعد میں ہوگی سردست راقم اپنے آپ کو اس دیانت دارانہ رائے کے اظہار پر مجبور پاتا ہے کہ تحریک پاکستان کا اصل جذبہ محرکہ مذہبی نہیں تھا، اور اُس کے نزدیک اس کا بالکل بین اور ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ تحریک پاکستان کی اصلی قیادت علیا ہرگز ’’مذہبی لوگوں‘‘ پر مشتمل نہیں تھی اور اِس قاعدہ کلیہ سے انکار ممکن نہیں ہے کہ کسی تحریک کا اصل جذبہ محرکہ سب سے زیادہ نمایاں اور ’’گاڑھی‘‘ صورت میں اُس کی قیادت میں نظر آنا لازم ہے.
یہ حقیقت اگرچہ کسی قدر تلخ ہے اور اس کا اظہار غالباً بہت سے لوگوں کو ناگوار بھی محسوس ہوگا لیکن ہمیں اپنی قومی زندگی کے چالیسویں برس میں تو اتنا ’’بالغ‘‘ ہو جانا چاہئے کہ تلخ حقائق کا اعتراف ہی نہیں اعلان بھی کر سکیں.
اس مرحلہ پر یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ شرافت ومروت اور صداقت و دیانت جداگانہ حقیقتیں ہیں اور ’’مذہبیت‘‘ ایک جداگانہ حقیقت ہے. اِس کی نمایاں ترین مثال، ابو طالب سے قطع نظر کہ اُن کا معاملہ اہل سنت اور اہل تشیع کے مابین مختلف فیہ ہے، مطعم بن عدی کی ہے جس نے سفر طائف سے واپسی پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائش پر اپنی امان کے اعلان اور اپنے چھ بیٹوںسمیت ہتھیار بند ہو کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بحفاظت مکہ میں داخلے کا اہتمام کیا تھا. اگرچہ وہ خود آخری وقت تک ایمان نہیں لایا اور اُس کی موت کفر و شرک ہی پر واقع ہوئی.
اِسی طرح یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ اس وقت ہم ایک عوامی تحریک کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں. چنانچہ اس ضمن میں زیر بحث، ’’مذہبیت‘‘ کا بھی وہ معیار اور تصور قابل لحاظ ہو گا جو عام مسلمانوں میں معروف و مشہور ہو، نہ کہ کسی خاص دانشور کا اپنے ذہن و فکر سے تراشیدہ اور خود اختیار کردہ معیار و تصور.
اِس اعتبار سے دیکھا جائے تو غالباً کوئی ایک شخص بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکے گا کہ تحریک پاکستان کی اصل قیادت جن لوگوں کے ہاتھوں میں تھی وہ نہ صرف یہ کہ اس وقت عوامی سطح پر مروجہ تصورات کے مطابق ’’مذہبی‘‘ لوگ نہ تھے بلکہ اُن کی اکثریت جدید دَور کی مروجہ اصطلاح کے مطابق (Practising Muslims) پر بھی مشتمل نہ تھی.
اِس ضمن میں ایک فیصلہ کن مثال تو اُس واقعے کی صورت میں سامنے آتی ہے جو راقم کو پروفیسریوسف سلیم چشتی صاحب نے سنایا تھا کہ ۱۹۴۲ء میں جالندھر میں مسلم لیگ کی ہائی کمانڈ کا جو اجلا س سکھوں کے ساتھ گفت و شنید کے اُصول طے کرنے کے لیے منعقد ہوا تھا اور جس مین مسلم لیگ کے ۲۳ اعلیٰ ترین قائدین شریک تھے، (چشتی صاحب نے بہت سے حضرات کے نام بھی تعین کے ساتھ لیے تھے جو میری نوٹ بک میں درج ہیں لیکن اس وقت اُن کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتا!) اُس میں جب مغرب کی نماز کا وقت آیا تو نماز کے لیے جو لوگ اُٹھے وہ کل دو تھے: ایک بیگم مولانا محمد علی جوہر مرحوم و مغفور جو برقع پوشی کی حالت میں شریک اجلاس تھیں اور دوسرے خو دپروفیسر یوسف سلیم چشتی جو اپنی ذاتی حیثیت میں نہیں بلکہ نواب سر شاہنواز ممدوٹ کی علالت کے باعث اُن کے نمائندے کی حیثیت سے شریک اجلاس تھے. میں چشتی صاحب کی اس روایت کو قبول کرنے میں شاید کچھ تامل کرتا. لیکن جب مجھے یاد آیا کہ بالکل یہی کیفیت ۲۲/فروری ۱۹۷۴ء کے دن لاہور میں منعقد ہونے والی ’’عالمی سربراہی کانفرنس‘‘ کے موقع پر پیش آئی کہ مغرب کی نماز کے وقت بھی اجلاس ایسے جاری رہا تھا جیسے کسی کو احساس ہی نہ ہو کہ کون سا وقت آیا اور گذر گیا. (اُس وقت غالباً واحد مستثنیٰ ذات شاہ فیصل شہید کی تھی جو مغرب کی نماز ادا کر کے تاخیر ہی سے اجلاس میں شریک ہوئے تھے) تو اِس واقعے کی صحت تسلیم کرنے میں بھی کوئی دقت پیش نہ آئی. دوسری نہایت پیاری بات وہ ہے جو پیر سید جماعت علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب کی جاتی ہے کہ اُن پر کسی نے اعتراض کیا کہ ’’آپ اتنی عظیم دینی و روحانی شخصیت کے حامل بلکہ لاکھوں کے دینی و روحانی مقتدا و رہنما ہو کر ایک داڑھی منڈے شخص (مراد تھے قائداعظم مرحوم!) کے پیچھے کیسے لگ گئے اور آپ نے کیسے اُسے اپنا رہنما تسلیم کر لیا؟‘‘ تو انہوں نے جواباً ارشاد فرمایا کہ ’’بھائی! میں نے محمد علی جناح کو اپنا دینی یا روحانی پیشوا نہیں مانا، بلکہ صرف اپنے قومی مقدمے کے لیے ایک قابل وماہر اور شریف و دیانتدار وکیل کے طور پر قبول کیا ہے!‘‘ اور اس میں ہر گز کوئی شک نہیں کہ قائداعظم یقینا ایک نہایت قابل و ماہر وکیل بھی تھے اور اُن کی دیانت اور امانت پر بھی کوئی حرف اُن کا بدترین دشمن بھی نہیں رکھ سکا. اِس کے باوجود نہ وہ واقعتہً ’’مذہبی‘‘ انسان تھے، نہ ہی انہوں نے کبھی اپنے آپ کو تکلفاً یا تصنعاً اِس رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی.
رہے وہ علماء و مشائخ جنہوں نے تحریک پاکستان کا ساتھ دیا تو خواہ وہ اپنے اپنے مقام پر کسی بھی مرتبے اور حیثیت کے مالک رہے ہوں، واقعہ یہ ہے کہ تحریک پاکستان کی قیادت کے ضمن میں اُن کا مقام اوّلین صف میں نہیں بلکہ ثانوی درجے میں تھا. اور اُن کی اصل حیثیت ’’قائدین‘‘ کی نہیں بلکہ ’’معاونین‘‘ کی تھی.
بہرحال زیر بحث سوال کے اس منفی جواب کے بعد آیئے کہ اِس کا مثبت جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں:
ہمارے نزدیک اِس ضمن میں پوری حقیقت کی جامع تعبیر نہ ’’معاشی‘‘ کے لفظ سے ہو سکتی ہے نہ ’’سیاسی‘‘ سے، بلکہ اس کی صحیح اور جامع تعبیر کے لیے موزوں ترین لفظ وہی ہے جو پیر سید جماعت علی شاہ ؒ کے محولہ بالا قول میں استعمال ہوا ہے یعنی ’قومی‘‘!
تحریک پاکستان اصلاً ایک قومی تحریک تھی اور اُس کا اصل جذبہ محرکہ ایک ’’چھوٹی قوم کا یہ ’’خوف‘‘ اور ’’خدشہ‘‘ تھا کہ اُس سے کئی گنا زیادہ بڑی قوم اُس کے ساتھ برابری اور انصاف کا معاملہ نہیں کرے گی، بلکہ سیاسی اعتبار سے اُسے ’’محکوم‘‘ بنانے کی کوشش کرے گی، معاشی سطح پر اُس کا استحصال کرے گی اور سماجی و معاشرتی اور تہذیبی و ثقافتی اعتبار سے اُس کے تشخص کو ختم کرنے کی کوشش کرے گی. اور اس پر بس نہیں کرے گی بلکہ ہر ممکنہ ذریعے سے اپنی گذشتہ محکومی کا بدلہ لینے اور حساب چکانے کی کوشش کرے گی یعنی اپنی ہزار سالہ غلامی کا انتقام لے گی. اور چونکہ یہ ’’خوف‘‘ اور اندیشہ‘‘ نہ فرضی تھا نہ خیالی و وہمی بلکہ حقیقی اور واقعی تھا، جس کا ادراک و احساس مسلمانانِ ہند کے ہر طبقے اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر ہو رہا تھا لہٰذا اِس تحریک نے جنگل کی آگ کی طرح وسعت اختیار کر لی اور اپنے جداگانہ تشخص کی ضمانت اور اپنے سیاسی و معاشی حقوق کی حفاظت کے لیے برصغیر کی پوری مسلمان قوم مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہو گئی، اور اس نعرے سے برصغیر کا طول و عرض گونج اٹھا کہ ’’مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ!‘‘
گویا تحریک پاکستان کا اصل جذبہ محرکہ نہ مذہبی تھا، نہ محدود معنی میں معاشی یا سیاسی بلکہ وہ ایک قومی جذبہ تھا جس نے جملہ تہذیبی و ثقافتی، سماجی و معاشرتی اور معاشی و سیاسی محرکات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا.
مسئلہ زیر بحث کی تیسری اور سب سے گہری سطح کا تعین اِس سوال کی صورت میں ہوتا ہے کہ ’’اُس چھوٹی قوم کی قومیت کی بنیاد کیا تھی؟‘‘جس کے جواب میں ہم لامحالہ وہیں پہنچ جائیں گے جہاں سے چلے تھے، اس لیے کہ یہاں پھر ایک ناقابل تردید حقیقت کا سامنا ہے اور وہ یہ کہ برصغیر کے مسلمان نہ کسی نسل کی بنیاد پر ایک قوم تھے، نہ زبان کی بنیاد پر، پھر نہ اُن کا لباس ایک تھا، نہ اکل و شرب کے ذوق اور طور طریقے ایک تھے، بلکہ اُن کو ایک قوم بنانے والی کوئی قدر مشترک تھی تو صرف ایک یعنی مذہب! یہی وجہ ہے کہ اگرچہ تحریک مسلم لیگ اصلاً ایک مذہبی تحریک نہ تھی، نہ ہی اِس کی اصل قیادت مذہبی لوگوں پر مشتمل تھی، لیکن اُسے مسلمانانِ ہند میں ایک قومی وحدت کے شعور کو بیدار اور اُجاگر کرنے کے لیے سب سے زیادہ انحصار مذہبی جذبے پر کرناپڑا اور برصغیر کے مسلمانوں کی اکثریت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے ؏ ’’بنتی نہیں ہے بادۂ و ساغر کہے بغیر!‘‘ کے مصداق مذہبی نعرہ لگانا پڑا یعنی: ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ‘‘.
ہمیں اس بحث میں جانے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں ہے کہ اِس نعرے میں وہ قیادت مخلص تھی یا غیر مخلص، اس لیے بھی کہ نیتوں کا حال صرف اللہ کے علم میں ہے اور ہمیں لوگوں کی نیتوں کو زیر بحث لائے بغیر ساری گفتگو حقائق و واقعات ہی کے حوالے سے کرنی چاہئے، اور اس لیے بھی کہ کسی عوامی تحریک کے ضمن میں اصل فیصلہ کسی خاص یا چند اشخاص کے خیالات و نظریات کی بنیاد پر نہیں ہوتا، بلکہ اِس اساس پر ہوتا ہے کہ اُس میں عوام نے شمولیت کس بناء پر اور کس تصور کے تحت کی.
بنابریں، اس میں ہرگز کوئی شک نہیں کیا جا سکتا اور کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ پاکستان کی اصل اساس سوائے دین و مذہب کے اور کوئی نہیں ہے، اور پاکستان کی واحد جڑ بنیاد صرف اور صرف اسلام ہے. اور جس طرح حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں روایت ہے کہ جب اُن سے نام دریافت کیا جاتا تو اوّلاً صرف ایک لفظی جواب دیتے ’’سلمان!‘‘ اور اگر عرب کی روایت کے مطابق مزید پوچھا جاتا تھا کہ ’’مسلمان ابن؟‘‘… تو جواباً ارشاد فرمایا کرتے تھے: ’’سلمان ابن اسلام‘‘ یعنی میری ولدیت اسلام ہے. اسی طرح پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کی ولدیت اسلام ہے.