ان میں سے اوّلین عامل کو ’’تاریخی عامل‘‘ (Historical Factor) کے نام سے موسوم کیا جا سکتا ہے. یعنی یہ کہ اگر کوئی ملک عرصہ دراز سے ایک ہی نام اور ایک ہی سے حدود اربعہ کے ساتھ قائم ہو تو اُس نام اور اُن حدود کو ایک گونہ ’’تاریخی تقدس‘‘ (Historical Sanctity) حاصل ہو جاتا ہے اور یہ اُس کی تقویت کا موجب اور اُس کے استحکام کا سبب بن جاتا ہے، اور اگر کبھی اس پربحیثیت مجموعی یا اُس کے کسی علاقے پر جزوی طور پر کوئی دوسرا ملک قبضہ کر لیتا ہے تب بھی نہ اُس کا نام بدلتا ہے نہ دنیا یہ تسلیم کرتی ہے کہ وہ علاقہ اب اُس ملک کا حصہ نہیں رہا بلکہ قابض ملک کا جزو بن گیا ہے. مثال کے طور پر جب سے دنیا کی تاریخ انسان کے علم میں ہے اُسی وقت سے چین نامی ملک بھی دنیا میں موجود ہے، اور اُس کا نام بھی ہمیشہ سے یہی چلا آ رہا ہے اور اُس کی حدود بھی ہمیشہ تقریباً یہی رہی ہیں. یہ اِسی کا نتیجہ ہے کہ اگرچہ جاپان نے چین کے بہت بڑے رقبے پر طویل عرصے تک قبضہ کیے رکھا، لیکن یہ نہیں ہوا کہ وہ علاقہ ’’چین‘‘ نہ رہا ہو بلکہ ’’جاپان‘‘ بن گیا ہو. بلکہ چین چین ہی رہا اور جاپان جاپان رہا اور کہنے میں یہی آتا رہا کہ چین کے اتنے رقبے پر جاپان قابض ہے.

ظاہر ہے کہ یہ تاریخی عامل اور یہ تاریخی تقدس پاکستان کو حاصل نہیں ہے اور اِس نام اور اِن حدود کے ساتھ تاریخ انسانی میں کبھی کوئی ملک موجود نہیں رہا. بلکہ پاکستان کا تو لفظ آج سے پچاس سال قبل تک دُنیا کی کسی لغت میں موجود ہی نہیں تھا. ذرا غور کیا جائے تو یہ اِسی کا مظہر تھا کہ ہمارے مشرقی پاکستانی بھائیوں نے پاکستان کے نام کی قیمت ٹکابھر بھی نہ سمجھی اور مغربی پاکستان سے علیحدہ ہوتے ہی اس نام کے لیبل کو اپنی پیشانی سے اُتار کر خلیج بنگال میں غرق کر دیا. ورنہ غور کا مقام ہے کہ کیا اِس وقت دنیا میں دو جرمنی، دو یمن اور دو کوریا موجود نہیں ہیں؟ اور کیا ان میں سے کوئی ایک بھی 
اپنے نام کو چھوڑنا گوارا کرے گا؟ ظاہر ہے کہ ہرگز نہیں! یہ اس لیے کہ ان ناموں کی تاریخی حیثیت ہے جس کی بناء پر انہیں ایک شہرت اور نیک نامی (Good Will) حاصل ہے جسے کوئی بھی ہاتھ سے دینے کو تیار نہیں ہوگا. جب کہ ’’پاکستان‘‘ ایک جدید اور ’’حادث‘‘ نام ہے جس کی کوئی خاص قدر و قیمت ابھی قائم نہیں ہوئی!

واقعہ یہ ہے کہ راقم کے نزدیک اگر مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے علیحدہ ہو جاتا، لیکن اپنے نام کو برقرار رکھتا تو صدمہ تو اِس صورت میں بھی ہوتا لیکن اکہرا. اور جب اُس نے اپنا نام تک بدل ڈالا تو یہ دوہرے صدمے والی بات ہوئی. اِس لیے کہ اِس طرح ہمارے بنگالی بھائیوں نے نہ صرف خود اپنی پینسٹھ سالہ تاریخ سے اعلانِ برأت کیا، بلکہ پوری برصغیر پاک و ہند کی ملت اسلامیہ کی توہین کی جس کی مشترکہ و متحدہ جدوجہد سے پاکستان قائم ہوا تھا! یہ بالکل دوسری بات ہے کہ اس پورے معاملے میں اصل موردِ الزام ہمارے بنگالی بھائی ہیں یا ہم یا پوری سابقہ ملت اسلامیہ پاکستان!… اسی طرح ؎

اور بھی دورِ فلک ہیں ابھی آنے والے ناز اتنا نہ کریں ہم کو ستانے والے

کے مصداق یہ بھی لازمی نہیں کہ مشرقی پاکستان کی یہ قلب ماہیت مستقل اور دائمی ہو. اِس ضمن میں بنگلہ دیش کے قیام سے لے کر اب تک بھارت کا جو سلوک اُس کے ساتھ رہا ہے اُس کے ردّ عمل کے طور پر الحمد للہ وہاں ’’پاکستانیت‘‘ کا احیاء اس حد تک ہو چکا ہے کہ مولوی فرید احمد مرحوم کے صاحبزادے کا یہ بیان سامنے آ چکا ہے کہ ہم وہاں آئندہ الیکشن ’’مشرقی پاکستان‘‘ کے نام پر لڑیں گے!

بہرحال یہ رنج اور صدمے والی بات بھی اپنی جگہ اور اِسی طرح آئندہ کے امکانات سے بھی قطع نظر، اِس وقت کی بحث کے اعتبار سے اصل اہمیت اِس حقیقت کی ہے کہ پاکستان کی تقویت کے لیے ’’تاریخی تقدس‘‘ کی قسم کا کوئی عامل موجود نہیں ہے. اس ضمن میں مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کا وہ قول بیک وقت دلچسپ بھی ہے اور عبرت انگیز بھی، جو حال ہی میں پاکستان کے بزرگ صحافی میاں محمد شفیع نے ایک روزنامے کے کالموں میں نقل کیا ہے، یعنی یہ کہ ’’پاکستان کے معاملے کو ہندوستان پر قیاس نہ کیا جائے، ہندوستان ایک ’’ملک‘‘ ہے اِس کے حالات کتنے بھی خراب ہو جائیں بہرحال یہ موجود رہے گا، جب کہ پاکستان ایک ’’تجربہ‘‘ ہے جو اگر ناکام ہو گیا تو پاکستان کا نام و نشان مٹ جائے گا.‘‘ میرے نزدیک اگر یہ روایت درست ہے تو مولانا مرحوم نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جس فرق کی نشاندہی کی ہے وہ اسی ’’تاریخی عامل‘‘ پر مبنی ہے.