ملکوں کو مستحکم کرنے والے تیسرے عامل کو ’’انسانی جذبہ‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاسکتا ہے اور اس میں ہرگز کوئی شک نہیں ہے کہ اگر کسی ملک یا خطہ ارضی کے رہنے والے انسانوں میں کوئی حقیقی اور واقعی جذبہ پیدا ہو جائے تو یہ تاریخ کو بھی شکست دے سکتا ہے اور جغرافیہ سے بھی لڑ سکتا ہے، اِس لیے کہ انسان واقعتا اشرف المخلوقات ہے اور قدرت نے اِس میں بے پناہ قوتیں اور توانائیاں ودیعت کر رکھی ہیں. اور واقعہ یہ ہے کہ جب کسی قوم اور بالخصوص اُس کے جوانوں میں کوئی جذبہ حقیقتاً اور واقعتا پیدا ہو جائے تو اُس کا رخ سوائے مشیت ایزدی اور قدرتِ خداوندی کے دنیا کی کوئی اور طاقت نہیں پھیر سکتی. بقول اقبال ؎
’’عقابی رُوح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اُن کو اپنی منزل آسمانوں میں!‘‘
اب اگر ذرا دقت نظر سے جائزہ لیا جائے تو انسانی جذبے کی دو ہی قسمیں نظر آئیں گی: ایک قوم پرستانہ جذبہ اور دوسرا مذہبی جذبہ. ان میں سے بھی اگرچہ تاریخ انسانی کے عظیم ترین معجزے تو مذہبی جذبے ہی کے تحت رونما ہوئے ہیں، تاہم کچھ اِس بناء پر کہ موجودہ دنیا میں یہ جذبہ بالعموم کمزور ہی نہیں معدوم کے درجے میں آ گیا ہے. اور کچھ موجودہ بحث کی منطقی ترتیب کے تقاضے کے طور پر پہلے ہم ’’قوم پرستانہ جذبہ، کا جائزہ لیتے ہیں کہ آیا اس کی کوئی قسم یا نوع ہمارے پاس بالفعل موجود یا ہمارے لیے ممکن الحصول ہے یا نہیں؟