3-وطنی قومیت
وطن کی اساس پر قومیت کی تشکیل کا تصور زیادہ پرانا نہیں ہے اور اسے عہد جدید کی پیداوار قرار دینا غلط نہ ہو گا. تاہم اِس وقت عالمی سطح پر کم از کم نظری اور دستوری و قانونی اعتبار سے سب سے زیادہ چرچا اور سب سے بڑھ کر رواج اِسی کا ہے.
منطقی اعتبار سے یہ بات بڑی وزنی (Sound) نظر آتی ہے کہ اگر کسی ملک کے رہنے والوں میں اپنے وطن سے قلبی محبت کا جذبہ پیدا ہو جائے تو یہ اُن کے احساسات و جذبات میں یک رنگی وہم آہنگی اور فکر و عمل میں اتحاد اور یک جہتی کی بنیاد بن جائے گا اور اُنہیں ایک ’’بنیان مرصوص‘‘ کی صورت عطا کر دے گا، اور اس کے زیر اثر رنگ و نسل، عقیدہ ومذہب اور زبان و ثقافت کا فرق و امتیاز جو ملکوں اور قوموں کی کمزوری کا باعث بنتا ہے اگر بالکل ختم نہیں ہوگا تو کم از کم غیر اہم ضرور ہو جائے گا. یہی وجہ ہے کہ عہد حاضر میں قومیت کے تعین کے ضمن میں وطن ہی کو تقریباً متفقہ طور پر اساس تسلیم کر لیا گیا ہے. چنانچہ یہ اِسی کا مظہر ہے کہ ایک موقع پر مولانا حسین احمد مدنی ؒ کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے تھے کہ ’’آج کل قومیں وطن کی بنیاد پر وجود میں آتی ہیں.‘‘ جس پر نہایت سخت اور تیز و تند تنقید کی تھی مفکر و مصور پاکستان علامہ اقبال مرحوم نے، جس کا تفصیلی ذکر بعد میں آئے گا، تاہم بنظر غائر دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ تاحال ’’وطنی قومیت‘‘ کی جڑیں لوگوں کے احساسات و جذبات میں گہری اُتری ہوئی نہیں ہیں، اور جذبات کی دنیا میں اصل راج رنگ و نسل، عقیدہ و مذہب اور زبان و ثقافت ہی کا ہے، اور بالفعل ’’وطنی قومیت‘‘ صرف ملکی دستور میں شہریت (Citizenship) کی اساس اور پاسپورٹوں پر قومیت (Nationality) کے اندراج کے طور پر کام آتی ہے اور اس نے کسی مؤثر ’’قوم پرستی‘‘ (Nationalism) کی صورت کہیں بھی اختیار نہیں کی.
اِس کے باوجود چونکہ پاکستان میں کسی قوم پرستانہ جذبہ کی پیدائش اور نشوونما کے لیے نہ اشتراکِ نسل کی بنیاد موجود ہے نہ اشتراکِ زبان کی، لہٰذا اِس کے ضمن میں کم از کم نظری طور پر کسی قوم پرستانہ جذبے کے لیے واحد دستیاب اساس (The Only Available Basis) یہی رہ جاتی ہے. اور غالباً اسی درجہ بدرجہ نفی کے عمل (Process of Elimination) کا نتیجہ تھا کہ بانی و مؤسس پاکستان قائداعظم محمد علی جناح مرحوم نے ۱۱/اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں اپنی تقریر کے دوران یہ جملہ کہہ دیا تھا کہ: ’’عنقریب پاکستان میں نہ مسلمان مسلمان رہیں گے نہ ہندو ہندو رہیں گے، مذہبی اعتبار سے نہیں، اِس لیے کہ مذہب تو اشخاص کا انفرادی معاملہ ہے، بلکہ سیاسی مفہوم کے اعتبار سے.‘‘ قائداعظم مرحوم کے ان الفاظ کا صحیح مفہوم کیا ہے؟ اور آیا ان الفاظ کو اُن کے سابقہ بیانات اور اعلانات کی نفی اور اپنے سابقہ مؤقف سے انحراف کا مظہر قرار دیا جائے، یا اُن کے اعصاب پر اُس وقت کے حالات کی پیچیدگیوں اور سنگینوں سے پیدا شدہ شدید دبائو کا اثر سمجھا جائے؟ (جیسا کہ غلام احمد پرویز نے بالفعل کیا ہے) اِس وقت ہمیں اس سے بحث نہیں ہے اور اگرچہ اِس کے ضمن میں راقم الحروف کی ایک سوچی سمجھی رائے ہے، جسے انشاء اللہ بعد میں بیان بھی کیا جائے گا تاہم موضوع زیر بحث کے اعتبار سے فی الوقت عرض یہ کرنا ہے کہ خواہ کوئی شخص اِس نتیجے پر، کہ پاکستان کے مسائل کا حال ایک وطنی نیشنلزم میں ہے، مجبوراً متذکرہ بالا (Process of Elimination) سے پہنچا ہو خواہ وہ مثبت طور پر اسی نظریے کا ذہناً و قلباً قائل ہو، حقیقت واقعی یہ ہے کہ ’’پاکستانی نیشنلزم‘‘ نام کی کوئی شے نہ تا حال وجود میں آئی ہے نہ تا قیامت آ سکتی ہے.