1-نسلی قوم پرستی

قوم پرستی (Nationalism) کی اقسام کا جائزہ لیا جائے تو سب سے پہلے یہ حیران کن حقیقت سامنے آتی ہے کہ موجودہ دنیا میں تمام تر علمی و سائنسی ترقی اور ذہنی و فکری ترفع کے باوجود نسل پرستانہ قومیت (Racial Nationalism) کا جذبہ سب سے زیادہ طاقتور اور مؤثر ہے. عہد حاضرمیں اس کی دو نمایاں ترین مثالیں جرمن نیشنلزم اور یہودی نسل پرستی کی صورت میں موجود ہیں. جرمن قوم میں اپنے بارے میں ایک اعلیٰ اور برتر نسل (A Superior Race) ہونے کے احساس نے اتنا جذبۂ عمل اور قوتِ مقاومت پیدا کر دی ہے کہ ہماری نگاہوں کے سامنے بیسویں صدی عیسوی کے دوران جرمنی دو بار شدید ترین تباہی سے دو چار ہوا، لیکن دونوں مرتبہ چند ہی سال کے اندر اندر پھر نہ صرف یہ کہ دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا ہو گیا بلکہ دوسری ہمعصر اقوام اور آس پاس کے ممالک کا ہر اعتبار سے ہمسر ہو گیا بلکہ بعض اعتبارات سے اُن سے بھی بازی لے گیا. اِسی طرح یہودی قوم میں بنی اسرائیل کے ’’خدا کی منتخب اور پسندیدہ قوم‘‘ (Chosen People of the Lord) ہونے کے احساس نے مقاومت اور مدافعت کی اتنی صلاحیت اور اپنی برتری کے بالفعل اظہار (Assertion) کے لیے بے پناہ محنت اور جدوجہد کا جذبہ پیدا کردیا ہے کہ تاریخ ِ انسانی کے دَوران بارہا انہیں شدید ترین جبر وتشدد(Persecution) کا سامنا کرنا پڑا، اور بعض مواقع پر تو اِن کے ’’استیصال‘‘ (Annihilation) اور کلی اور مجموعی خاتمے (Mass Extermination) کی ایسی سرتوڑ کوششیں ہوئیں کہ جن کی کوئی دوسری مثال تاریخ انسانی میں بمشکل ہی مل سکے گی، اِس سب کے باوجود وہ آج بھی دنیا میں موجود ہیں اور ؏ 
’’اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے، اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے!‘‘

کے مصداق اگر کسی ایک خطے یا ملک سے اُنہیں دیس نکالا مل جاتا ہے تو کچھ ہی عرصے کے بعد نظر آتا ہے کہ انہوں نے کسی اور ملک میں قدم جما لیے ہیں. چنانچہ اِس صدی کے آغاز میں علامہ اقبال نے اُن کی جس کیفیت کا مشاہدہ بچشم سریورپ میں کیا تھا جس کی تعبیر انہوں نے ان الفاظ مین فرمائی تھی کہ ؏ ’’فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے!‘‘

اُس کے بعد بالخصوص جرمنی میں ہٹلر کے ہاتھوں ان کا جو حشر ہوا اور وقتی طور پر اُنہیں جو نقصان پہنچا اُس کے چند سالوں کے اندر اندر انہوں نے بعینہٖ وہی حیثیت امریکہ میں حاصل کر لی. چنانچہ آج اسرائیل کی چھوٹی سی مملکت امریکہ ہی کی امداد اور سرپرستی کے بل پر نہ صرف پورے عالم عرب بلکہ پورے عالم اسلام کو ناک چنے چبوا رہی ہے. اور اِسی پر بس نہیں دُور بیٹھے پاکستان تک کو دھمکیاں دے رہی ہے.

اِس سلسلے میں ضمنی طور پر یہ بات بھی سامنے آ جائے تو اچھا ہے کہ یہ بات جو دنیا میں بالعموم کہی جاتی ہے کہ موجودہ دنیا کے دو ملک مذہب کی بنیاد پر قائم ہوئے ہیں، ایک پاکستان اور دوسرا اسرائیل، تو یہ درحقیقت اسرائیل کی نسل پرستی کو چھپانے کا نہایت شاطرانہ انداز ہے. حقیقت یہ ہے کہ خالص مذہب کی بنیاد پر دنیا میں صرف ایک ہی ملک قائم ہوا ہے اور وہ ہے پاکستان. اسرائیل کی اساس مذہب پر نہیں نسل پرستی پر ہے اور ’’صیہونیت‘‘ 
(Zionism) ____اصلاً ایک دینی اور مذہبی تحریک نہیں بلکہ نسل پرستانہ تحریک (Racial Movement) ہے اور اسرائیل خالص نسل پرستانہ (Racist) ملک ہے.

بہرحال ہماری اس وقت کی گفتگو کے اعتبار سے اہم نکتہ یہ ہے کہ نظری طور پر نسل پرستی کی بنیاد پر بھی ایک نہایت طاقتور جذبہ وجود میں آ سکتا ہے. لیکن (الحمد للہ کہ) پاکستان میں نسلی قومیت کے لیے کوئی اساس موجود نہیں ہے. اس لیے کہ برصغیر پاک و ہند نسلی اعتبار سے غالباً پوری دنیا میں سب سے بڑی کھچڑی (بلکہ حلیم!) کی حیثیت رکھتا ہے اور ظاہر ہے کہ اُسی کا ایک خلاصہ اِس وقت پاکستان میں موجود ہے. چنانچہ ہمارے یہاں در اوڑی لوگ بھی موجود ہیں (جیسے بلوچستان کے برہوی قبائل) اور آریائی نسل سے تعلق رکھنے والے بھی موجود ہیں، اِسی طرح منگول بھی ہیں اور سامی النسل بھی، بلوچ بھی ہیں اور افغان 
بھی ، حتیٰ کہ شمالی علاقہ جات میں شین بھی ہیں اور بلتی بھی! الغرض یہاں کسی ایک نسل کے لوگ ایسی غالب اکثریت میں موجود نہیں ہیں کہ نسل قوم پرستی کی بنیاد پر ملک کے استحکام کی توقع کی جا سکے.

2-لسانی قوم پرستی

نسلی قوم پرستی کے بعد موجودہ دنیا میں سب سے زیادہ طاقتور قومی جذبہ____ (Potent Nationalism) ____لسانی قوم پرستی (Linguistic Nationalism) کی صورت میں نظر آتا ہے. اس کی بھی دو مثالیں قابل توجہ ہیں: ایک عرب نیشنلزم اور دوسرے بنگلہ نیشنلزم.

عرب نیشنلزم جو ماضیٔ قریب میں عالم عرب میں ایک زبردست قوت کی حیثیت سے موجود رہا ہے اصلاً ایک لسانی نیشنلزم ہے. اِس لیے کہ اس کی اساس نہ مذہب پر ہے نہ نسل پر، بلکہ صرف اور صرف زبان پر ہے. چنانچہ اس کے حلقہ بگوش اور علمبردار صرف مسلمان ہی نہیں رہے ہیں بلکہ دانشوروں کی سطح پر اس میں زیادہ بھاری پلڑا عیسائیوں کا رہا ہے، حتیٰ کہ یہودی بھی اس میں شریک رہے ہیں. پھر اس میں نسل کی بھی کوئی تخصیص نہیں ہے اِس لیے کہ شمالی افریقہ کے باشندوں میں جہاں عرب آبادکاروں کی اولاد شامل ہے، وہاں قدیم قبطی اور بربرنسل کے لوگ بھی موجود ہیں. لیکن اِس سب کے باوجود محض زبان کے اشتراک نے اِن سب میں مشترک قومیت کا احساس پیدا کیا اور خواہ اُس کے اساسی فلسفے سے ہمیں کتنا ہی اختلاف ہو بہرحال یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ عالم عرب نے یورپی استعمار کے خلاف جو جدوجہد کی اور جس کے بل پر اِس استعمار کا جوا اپنے کندھوں سے اُتار پھینکا، اُس کی اصل اساس اِسی لسانی قوم پرستانہ جذبہ پر تھی.

اِسی طرح پاکستان کے دو لخت ہونے میں جہاں منفی طور پر اولاً بے مقصدیت اور بے یقینی کے خلاء اور بعدازاں مارشل لاء کے رد عمل کو دخل حاصل ہے، وہاں مثبت طور پر جو ہتھیار سب سے زیادہ کارگر اور جو وار سب سے بڑھ کر کاری ثابت ہوا وہ بنگلہ نیشلزم کا تھا جس کی اساس بنگلہ زبان پر قائم کی گئی تھی.

یاد ہو گا کہ حصولِ پاکستان کی تحریک کے دوران تو چونکہ مقابلہ ہندو قوم اور ہندی زبان سے تھا لہٰذا مسلم قومیت اور اُردو زبان تقریباً لازم و ملزوم بلکہ اس سے بھی بڑھ کر تقریباً مترادف اور ہم معنی ہو 
گئے تھے. لیکن قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی مشرقی پاکستان میں بنگلہ زبان اُردو کے مد مقابل کی حیثیت سے سامنے آ گئی تھی. اور خود قائداعظم کی زندگی کے دوران اِس مسئلے نے اتنی شدت اختیار کر لی تھی کہ اُنہیں اپنی تمام تر علالت اور نقاہت کے باوجود مشرقی پاکستان کا سفر اختیار کرنا پڑا تھا. اِسی زمانے کا واقعہ ہے کہ علامہ سید سلیمان ندویؒ کے ساتھ ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ نے نہایت توہین آمیز رویہ محض اس بات پر اختیار کیا تھا کہ انہوں نے خالص علمی انداز میں وہاں یہ فرما دیا تھا کہ کچھ عرصہ قبل بنگلہ زبان کا رسم الخط (Script) بھی وہی تھا جو عربی، فارسی، اردو، حتیٰ کہ سندھی، بلوچی اور پشتو کا ہے، اور یہ تجویز پیش کی تھی کہ دوبارہ بنگلہ زبان کا رسم الخط اُردو والا ہی اختیار کر لیا جائے تو لسانی بعد و فصل میں کمی آ جائے گی جس سے قومی یک جہتی کو فروغ حاصل ہوگا. بہرحال پاکستان کی زندگی کے پہلے پچیس سالوں (۱کے دوران جہاں ایک جانب بے یقینی اور بے مقصدیت کا خلامہیب سے مہیب تر ہوتا چلا گیا اور قومی وملی سطح پر ضعف بڑھتا چلا گیا، وہاں مشرقی پاکستان میں بنگلہ زبان، بنگلہ ادب، بنگلہ تہذیب اور بنگلہ ثقافت کے حوالے سے بنگلہ نیشنلزم قدم جماتا چلاتا گیا. اور بالآخر اسی کے منطقی نتیجے کے طور پر ’’بنگلہ دیش‘‘ وجود میںآ گیا اور مشرقی پاکستان کا نام بھی دنیا کے نقشے سے غائب ہو گیا.

ذرا دقت ِنظر سے جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ زبان کا اِشتراک لوگوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے اور ان میں یگانگت پید اکرنے میں نسلی اشتراک سے بھی زیادہ مؤثر اور سریع الاثر ہے. اس لیے کہ نسلی اشتراک کا تعلق اصلاً ماضی اور اس کی روایات سے ہوتا ہے، جب کہ لسانی اشتراک فی الفور محسوس و مشہود ہوتا ہے اور اپنی مادری زبان میں انسان اپنے جذبات و احساسات کا اظہار جس بے تکلفی سے اور جس بھرپور انداز میں کر سکتا ہے کسی دوسری زبان کو خواہ وہ کتنا بھی سیکھ لے اور اُس میں کتنی بھی مہارت حاصل کر لے، اُس میں جذبات کے اظہار کی وہ کیفیت کبھی پیدا نہیں ہو سکتی. بنابریں اشتراک لسانی اجتماعیات انسانیہ میں ’’عصبیت‘‘ پیدا کرنے میں بہت دخیل اور مؤثر ہے.

اِس اعتبار سے دیکھا جائے تو اگرچہ باقی ماندہ پاکستان میں وہ واحد زبان جو اِس کے ہر حصے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے صرف اور صرف اُردو ہے، تاہم اِس کا عمل دخل اتنا بہرحال نہیں ہے کہ اُسے ایک 
(۱) واضح رہے کہ اگست ۱۹۴۷ء سے دسمبر ۱۹۷۱ء تک شمسی حساب سے تقریباً سوا چوبیس سال بنتے ہیں لیکن قمری حساب سے پچیس سال سے بھی کسی قدر زائد. لسانی قومیت کی بنیاد بنایا جا سکے. اور بنگلہ زبان کا مسئلہ ختم ہو جانے کے بعد موجودہ پاکستان میں کم از کم ایک زبان ایسی موجود ہے جو کسی بھی طور سے اُردو کی بالا دستی کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں. ہماری مراد سندھی زبان سے ہے، جس کی اساس پر ’’سندھی نیشنلزم‘‘ ہوبہو ’’بنگلہ نیشنلزم‘‘ کے خطوط پر پروان چڑھ رہا ہے، بلکہ واقعتا ایک تناور درخت کی صورت اختیار کر چکا ہے، حتیٰ کہ ’’بچے کھچے پاکستان‘‘ کو سب سے بڑا داخلی خطرہ اِسی سے لاحق ہے.

یہ اِسی کا مظہر تھا کہ سقوطِ مشرقی پاکستان کے تقریباً فوراً بعد لسانی فسادات کا لاوا سندھ میں پھٹ پڑا تھا جس سے مغربی پاکستان کی سالمیت کی چولیں ہل کر رہ گئی تھیں اور سقوطِ مشرقی پاکستان پر بھارت کی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی نے جہاں یہ الفاظ کہے تھے کہ ’’ہم نے اپنی ہزار سالہ شکست کا بدلہ لے لیا ہے.‘‘ 
(We Have Avenged One Thousand Years Defeat) جس سے پنڈت موتی لال نہرو ایسے بظاہر وسیع المشرب انسان کی پوتی اور پنڈت جواہر لال نہرو ایسے مذہبیت سے دُور اور سوشلزم کے پرستار کی بیٹی کی بھی خالص ’’ہندوانہ ذہنیت‘‘ کا بھانڈا پھوٹ گیا تھا. وہاں ساتھ ہی اپنی قوم سے وعدہ بھی کیا تھا کہ: ’’میں عنقریب ایک بہت بڑی خوش خبری اور سنانے والی ہوں.‘‘ جس سے یہ بات الم نشرح ہو گئی تھی کہ بقیہ پاکستان کی سالمیت بھی ہندو ذہن اور مزاج کے لیے کس درجہ ناقابل برداشت شے ہے. اس لیے کہ اُس کے اِس وعدے کا مصداق خارجی ظاہر ہے کہ سندھ کے لسانی فسادات کے سوا اور کوئی چیز قرار نہیں دی جا سکتی.

قصہ مختصر یہ کہ ہمارے پاس کل پاکستان اساس پر کسی لسانی قومیت سے پیدا شدہ جذبۂ عمل تو درکنار، تا حال ’’قومی زبان‘‘ کے مسئلے کا حل بھی موجود نہیں ہے.

3-وطنی قومیت

وطن کی اساس پر قومیت کی تشکیل کا تصور زیادہ پرانا نہیں ہے اور اسے عہد جدید کی پیداوار قرار دینا غلط نہ ہو گا. تاہم اِس وقت عالمی سطح پر کم از کم نظری اور دستوری و قانونی اعتبار سے سب سے زیادہ چرچا اور سب سے بڑھ کر رواج اِسی کا ہے.

منطقی اعتبار سے یہ بات بڑی وزنی 
(Sound) نظر آتی ہے کہ اگر کسی ملک کے رہنے والوں میں اپنے وطن سے قلبی محبت کا جذبہ پیدا ہو جائے تو یہ اُن کے احساسات و جذبات میں یک رنگی وہم آہنگی اور فکر و عمل میں اتحاد اور یک جہتی کی بنیاد بن جائے گا اور اُنہیں ایک ’’بنیان مرصوص‘‘ کی صورت عطا کر دے گا، اور اس کے زیر اثر رنگ و نسل، عقیدہ ومذہب اور زبان و ثقافت کا فرق و امتیاز جو ملکوں اور قوموں کی کمزوری کا باعث بنتا ہے اگر بالکل ختم نہیں ہوگا تو کم از کم غیر اہم ضرور ہو جائے گا. یہی وجہ ہے کہ عہد حاضر میں قومیت کے تعین کے ضمن میں وطن ہی کو تقریباً متفقہ طور پر اساس تسلیم کر لیا گیا ہے. چنانچہ یہ اِسی کا مظہر ہے کہ ایک موقع پر مولانا حسین احمد مدنی ؒ کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے تھے کہ ’’آج کل قومیں وطن کی بنیاد پر وجود میں آتی ہیں.‘‘ جس پر نہایت سخت اور تیز و تند تنقید کی تھی مفکر و مصور پاکستان علامہ اقبال مرحوم نے، جس کا تفصیلی ذکر بعد میں آئے گا، تاہم بنظر غائر دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ تاحال ’’وطنی قومیت‘‘ کی جڑیں لوگوں کے احساسات و جذبات میں گہری اُتری ہوئی نہیں ہیں، اور جذبات کی دنیا میں اصل راج رنگ و نسل، عقیدہ و مذہب اور زبان و ثقافت ہی کا ہے، اور بالفعل ’’وطنی قومیت‘‘ صرف ملکی دستور میں شہریت (Citizenship) کی اساس اور پاسپورٹوں پر قومیت (Nationality) کے اندراج کے طور پر کام آتی ہے اور اس نے کسی مؤثر ’’قوم پرستی‘‘ (Nationalism) کی صورت کہیں بھی اختیار نہیں کی.
اِس کے باوجود چونکہ پاکستان میں کسی قوم پرستانہ جذبہ کی پیدائش اور نشوونما کے لیے نہ اشتراکِ نسل کی بنیاد موجود ہے نہ اشتراکِ زبان کی، لہٰذا اِس کے ضمن میں کم از کم نظری طور پر کسی قوم پرستانہ جذبے کے لیے واحد دستیاب اساس 
(The Only Available Basis) یہی رہ جاتی ہے. اور غالباً اسی درجہ بدرجہ نفی کے عمل (Process of Elimination) کا نتیجہ تھا کہ بانی و مؤسس پاکستان قائداعظم محمد علی جناح مرحوم نے ۱۱/اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں اپنی تقریر کے دوران یہ جملہ کہہ دیا تھا کہ: ’’عنقریب پاکستان میں نہ مسلمان مسلمان رہیں گے نہ ہندو ہندو رہیں گے، مذہبی اعتبار سے نہیں، اِس لیے کہ مذہب تو اشخاص کا انفرادی معاملہ ہے، بلکہ سیاسی مفہوم کے اعتبار سے.‘‘ قائداعظم مرحوم کے ان الفاظ کا صحیح مفہوم کیا ہے؟ اور آیا ان الفاظ کو اُن کے سابقہ بیانات اور اعلانات کی نفی اور اپنے سابقہ مؤقف سے انحراف کا مظہر قرار دیا جائے، یا اُن کے اعصاب پر اُس وقت کے حالات کی پیچیدگیوں اور سنگینوں سے پیدا شدہ شدید دبائو کا اثر سمجھا جائے؟ (جیسا کہ غلام احمد پرویز نے بالفعل کیا ہے) اِس وقت ہمیں اس سے بحث نہیں ہے اور اگرچہ اِس کے ضمن میں راقم الحروف کی ایک سوچی سمجھی رائے ہے، جسے انشاء اللہ بعد میں بیان بھی کیا جائے گا تاہم موضوع زیر بحث کے اعتبار سے فی الوقت عرض یہ کرنا ہے کہ خواہ کوئی شخص اِس نتیجے پر، کہ پاکستان کے مسائل کا حال ایک وطنی نیشنلزم میں ہے، مجبوراً متذکرہ بالا (Process of Elimination) سے پہنچا ہو خواہ وہ مثبت طور پر اسی نظریے کا ذہناً و قلباً قائل ہو، حقیقت واقعی یہ ہے کہ ’’پاکستانی نیشنلزم‘‘ نام کی کوئی شے نہ تا حال وجود میں آئی ہے نہ تا قیامت آ سکتی ہے.