اس کی اوّلین اور اہم ترین وجہ یہ ہے کہ پاکستان دو قومی نظریہ کی اساس پر وجود میں آیا تھا، جو وطنی قومیت کے نظریے کی کامل نفی کی حیثیت رکھتا ہے. تو کیسے ممکن ہے کہ کوئی ملک قائم تو ہو کسی نظریے کی کامل نفی کی اساس پر اور پھر اس کے استحکام کے لیے وہی نظریہجڑ بنیاد کا کام دے سکے؟
یاد کیجئے! کہ انڈین نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے مابین اختلاف و نزاع کی اصل بنیاد کیا تھی؟ کانگریس کے نزدیک مذہب وملت کا معاملہ علیحدہ تھا اور قومیت کا علیحدہ، چنانچہ ہندوستان مین مذاہب بہت سے تھے لیکن اُن سب کے پیروئوں پر مشتمل قوم ایک ہی تھی یعنی انڈین نیشن یا ہندی قوم، جب کہ مسلم لیگ کا مؤقف یہ تھا کہ یہ صورت دوسرے جملہ مذاہب کے پیروؤں کے نزدیک قابل قبول ہو تو ہو کم از کم مسلمانانِ ہند کے لیے ہرگز قابل قبول نہیں ہے، اس لیے کہ اُن کی قومیت کی اساس مذہب پر ہے، لہٰذا وہ ایک علیحدہ قوم ہیں اور اپنے جداگانہ قومی تشخص کے بقاء کی ضمانت کے طور پر علیحدہ ملک کے حق دار ہیں.
اِس موضوع پر خود قائداعظم محمد علی جناح کے بے شمار بیانات اور اعلانات مشہور و معروف ہیں، جن کا دوہرا نامحض تحصیل حاصل کا مصداق اور وقت اور قلم و قرطاس کے لا حاصل صرف کا باعث ہوگا. البتہ اصولی اور اساسی اعتبار سے ’‘وطنی قومیت‘‘ کے نظریے پر جو کاری ضرب مفکر و مصور پاکستان علامہ محمد اقبال نے لگائی تھی وہ یقینا اِس قابل ہے کہ اُسے ذہنوں میں تازہ کیا جائے. اِس لیے کہ انہوں نے مسلمانوں کے ایک جداگانہ قوم ہونے کے صرف تہذیبی، تمدنی اور ثقافتی شواہد ہی پیش نہیں کیے تھے، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ایک ضرب ابراہیمی سے اِس باطل نظریے کے بت ہی کو پاش پاش کر دیا تھا کہ ملکی سرحدیں مستقل قومیتوں کی تشکیل کی بنیاد بن سکتی ہیں اور انسان محض زمینی تعلق کی بناء پر ایک دوسرے سے کٹ سکتا ہے. چنانچہ ’’وطنیت (یعنی وطن بحیثیت ایک سیاسی تصور کے) کے عنوان سے فرماتے ہیں : ؎
’’اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اور
ساقی نے بنا کی روشِ لطف و ستم اور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آذر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اِس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیب نوی ہے
غارت گر کاشانہ دین نبویؐ ہے
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفویؐ ہے
نظارۂ دیرینہ زمانے کو دِکھا دے!
اے مصطفوی! خاک میں اِس بت کو ملا دے!‘‘
ذرا الفاظ کی گہرائی میں اُتر کر مفکر و مصورِ پاکستان کے اس موضوع پر احساس کی شدت کا اندازہ لگایا جائے تو بے اختیار غالب کا یہ شعر یاد آ جاتا ہے کہ ؎
’’عرض کیجئے جو ہر اندیشہ کی گرمی کہاں
کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا!‘‘
اِسی طرح مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کے متذکرہ بالا جملے پر جو تلخ اور تیز و تند لیکن شعریت اور فصاحت و بلاغت کی معراج کے مظہر اشعار کہے تھے علامہ سر محمد اقبال نے ،وہ یہ تھے: ؎
’’عجم ہنوز نہ داند رموزِ دیں ورنہ زِ دیوبند حسین احمد ایں چہ بوالعجیست
سرود برسر منبر کہ ملت از وطن است چہ بے خبرز مقامِ محمدؐ عربی است
بمصطفیٰ برساں خویش راکہ دیں ہمہ اوست اگر بہ اُو نہ رسیدی تمام بولہبی است!‘‘
یہ دوسری بات ہے کہ جب مولانا مدنیؒ نے یہ وضاحت فرمائی کہ اوّلاً انہوں نے لفظ قوم کا استعمال کیا تھا ملت کا نہیں! اور ثانیاً: انہوں نے صرف موجودہ دور کی عام روش کا ذکر کیا تھا، نہ اُس کی وکالت کی تھی، نہ ہی مسلمانوں کو اِس کے قبول کرنے کی تلقین کی تھی، تو علامہ مرحوم نے فوراً اعتراف کیا کہ اس پر اعتراض کا مجھے کوئی حق حاصل نہیں ہے اور اپنے اشعار سے بھی رجوع کر لیا. اگرچہ اُن کے کلام کے ایک جزو کی حیثیت سے یہ اشعار اب بھی شائع ہو رہے ہیں. (کاش کہ ان کے اشعار کے ساتھ کلام اقبال کے طابع و ناشر متذکرہ بالا حقائق پر مشتمل ایک وضاحتی نوٹ بھی شائع کر دیا کریں).
قصہ مختصر، وطنی قومیت کا نظریۂ تحریک پاکستان کی نفی ہے اور اس کے فروغ سے پاکستان کی جڑیں مزید کھوکھلی تو ہو سکتی ہیں مضبوط نہیں ہوسکتیں.