دوسری نہایت اہم وجہ یہ ہے کہ مسلمان خواہ وہ باعمل (Practicing) ہو، خواہ بے عمل (Non-Practicing) ____بہرحال اُس کے مزاج کی ایک مستقل ساخت ہے اور اُس کی طبیعت کی ایک خاص اُفتاد ہے، جس میں زمین کی پرستش اور ’’وطن‘‘ کے تقدس کے تصور کی کوئی گنجائش نہیں ہے. گویا اُس کی شخصیت کا خمیر جس مٹی سے اُٹھا ہے اُس میں ’’حب وطن‘‘ کا مادہ تو ہو سکتا ہے، ’’وطن پرستی‘‘ کا امکان نہیں ہے. پروفیسر مرزا محمد منور اِس حقیقت کو اِن خوبصورت الفاظ سے تعبیر کیا کرتے ہیں کہ ہند و کلچر زمین میں گڑا ہوا اور زمین سے بندھا ہوا (Earth Rooted and Earth Bound) ہے. یہی وجہ ہے کہ اُن کے یہاں زمین ’’دھرتی ماتا‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے اور ’’بھارت کی جے‘‘ کے نعرے سے اُن کے جذبات میں اُبھار اور احساسات میں ارتعاش پیدا ہو جاتا ہے، جب کہ مسلمان کے دل میں زمین کے مقدس یادیوتا ہونے کا کوئی تصور موجود نہیں ہے بلکہ اُس کا مزاج’’آفاقی‘‘ ہے اور اُس کے جذبات میں گرمی اور احساسات میں ہلچل ’’اللہ اکبر‘‘ کے نعرے سے ہوتی ہے. علامہ اقبال نے اپنی اُس نظم میں جس کے چند اشعار اُوپر نقل ہو چکے ہیں، اِس ’’قید زمینی‘‘ کے تصور پر بھی نہایت زور دار تیشہ چلا یا ہے: ؎

’’ہو قیدِ مقامی تو نتیجہ ہے تباہی رہ بحر میں آزادِ وطن صورت ماہی
ہے ترکِ وطن سنت محبوب الٰہی دے تو بھی نبوت کی صداقت کی گواہی
گفتارِ سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے ارشادِ نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے!‘‘