اس معاملے میں واقعہ یہ ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو زیادہ ہی خصوصیت حاصل ہے اور ان کا مزاج کچھ زیادہ ہی ’’آفاقی‘‘ ہے. اِس کا ایک ممکنہ سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چونکہ یہاں کوئی دوسری نسلی یا لسانی عصبیت ایسی موجود نہیں تھی جو اُنہیں ایک دوسرے سے باندھ سکتی، لہٰذا اپنی شیرازہ بندی کے لیے انہیں مذہب کی قوت ماسکہ (Binding Force) پر دوسرے علاقوں کے مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ ہی انحصار کرنا پڑا اور چونکہ اسلام ایک علاقائی مذہب نہیں بلکہ آفاقی اور عالمی مذہب ہے. لہٰذا اُن میں ’’آفاقیت‘‘ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ ہی سرایت کر گئی اور ؏ ’’ہر ملک ملک ماست کہ ملک خدائے ماست!‘‘
اُ ن کے قلوب و اذہان میں خوب رچ بس گیا اور اُن کے قومی شعور کا جزولاینفک بن گیا.
چنانچہ بیسیویں صدی عیسوی میں مغربی استعمار کے ہاتھوں عالمی ملت اسلامیہ کو جو چرکے لگے اور صدمے سہنے پڑے اور جن مظالم کا نشانہ بننا پڑا، اُن پر سب سے زیادہ درد انگیز نالے اور رقت آمیز مرثیے ہندوستان کے مسلمانوں نے کہے. اور اگرچہ وہ خود تو اُن مظالم و مصائب سے گزشتہ صدی کے دوران دو چار ہو چکے تھے اور اب نسبتاً پر امن ماحول اور قانونی و دستوری نظام میں زندگی گزار رہے تھے، لیکن جب بھی دنیا کے کسی بھی کونے سے مسلمانوں پر ظلم وستم کی خبر آتی تھی، ہندوستان کا مسلمان بالکل اسی شان کے ساتھ تڑپ اُٹھتا تھا جس کا نقشہ اِس شعر میں سامنے آتا ہے: ؎
’’خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے!‘‘
چنانچہ طرابلس میں مسلمانوں کے جھنڈے سرنگوں ہوئے تو عربی زبان میں دردا نگیز مرثیہ کہا اعظم گڑھ (یوپی) کے ایک اصلاً ہندی اور نسلاً راجپوت مسلمان عالم و عارف کتابِ الٰہی مولانا حمید الدین ؒنے ؎
کَیْفَ الْقَرَارُ وَقَدْ نُکِس اَعْلاَمُنَا بِطَرابَلس!!
’’قرار کیسے نصیب ہو جب کہ ہمارے جھنڈے طرابلس میں سرنگوں کر دیئے گئے.‘‘
اور اِسی طرح کے کتنے ہی درد بھرے مرثیے لکھے اُن کے بزرگ اور رشتے کے بھائی علامہ شبلی نعمانی ؒ نے (علامہ شبلی اور مولانا فراہیؔ آپس میں ماموں زاد اور پھوپھی زاد بھائی تھے). پھر پوری اُمت مسلمہ کی زبوں حالی پر خون کے آنسو روئے مولانا حالیؔ، جنہوں نے اُمت کے درد اور اصلاحِ احوال کی بے پناہ آرزو کے تحت اپنی شہرہ آفاق ’’مسدس‘‘ لکھ ڈالی. جس کے سرنامے کے یہ دو اشعار توابدی اور غیر فانی ہیں کہ: ؎
’’پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے اسلام کا گر کر نہ اُبھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جذر کے بعد دریا کا ہمارے جو اُترنا دیکھے!‘‘
اور اِسی طرح آخر میں ’’مناجات بحضور سرور کونینؐ کے یہ دو اشعار بھی نہایت درد انگیز اور رقت آمیز ہیں:
’’اے خاصۂ خاصان رسل وقت دُعا ہے اُ مت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
و ہ دیں جو بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے پردیس میں وہ آج غریب الغرباء ہے!‘‘
پھر ذرا تصور کیجئے اُن جرأت مندانہ اور ولولہ انگیز مضامین و مقالات کا جو پہلی جنگ عظیم کے دوران ترکوں کی حمایت میں نکلے مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کے سحر آفریں اور جذبہ پرور قلم سے، اور شائع ہوئے ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ میں (از۱۹۱۲ء تا ۱۹۱۶ء) ____ پھر کون نہیں جانتا کہ مسلمانوں کی عظمت و سطوت گزشتہ کے ضمن میں اِس صدی کا سب سے بڑا نوحہ خواں، امت مسلمہ کو دنیا کے کسی بھی کونے میں پہنچنے والے دُکھ اور درد پر سب سے بڑھ کر درد انگیز نالے بلند کر نے والا اورآہ و فغاں کرنے والا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دین و ملت کی نشاۃ ِ ثانیہ کے ضمن میں سب سے بڑا حُدی خواں بھی، اسی صنم خانۂ ہند سے تعلق رکھنے والا ’’برہمن زادہ‘‘ اور ’’کافر ہندی‘‘ تھا. بقول خود اُس کے : ؎
’’کافر ہندی ہوں میں دیکھ مرا ذوق و شوق لب یہ صلوٰۃ و درود دل میں صلوٰۃ و درود‘‘
اور ؏ ’’برہمن زادۂ رمزآشنائے روم وتبریز است!‘‘
چنانچہ وہ کبھی جزیرۂ صقلیہ کو دیکھ کر خون کے آنسو رویا: ؎
’’رولے اب دل کھول کر اے دیدۂ خوننابہ بار
وہ نظر آتا ہے تہذیب حجازی کا مزار!
تھا یہاں ہنگامہ اُن صحرا نشینوں کا کبھی
بحر بازی گاہ تھا جن کے سفینوں کا کبھی
زلزلے جن سے شہنشاہوں کے درباروں میں تھے
بجلیوں کے آشیانے جن کی تلواروں میں تھے
غلغلوں سے جن کے لذت گیراب تک گوش ہے
کیا وہ تکبیر اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہے!‘‘
کبھی ہسپانیہ سے مخاطب ہو کر نوحہ کناں ہوا : ؎
’’ہسپانیہ تو خونِ مسلماں کا امیں ہے مانند حرم پاک ہے تو میری نظر میں
پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں خاموش اذانیں ہیں تری بادِ سحر میں
کیونکر خس و خاشاک سے دَب جائے مسلماں مانا وہ تب و تاب نہیں اُس کے شرر میں!‘‘
کبھی مسجد قرطبہ سے خطاب کرتے ہوئے اپنے باطنی سوز و گداز اور ذوق وشوق کا اظہار کرتا ہوا نظر آتا ہے ؎
’’اے حرمِ قرطبہ! عشق سے تیرا وجود عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود
تیری فضا دل فروز، میری نوا سینہ سوز تجھ سے دلوں کا حضور، مجھ سے دلوں کا کشود
کعبۂ ارباب فن، سطوتِ دین مبیں تجھ سے حرم مرتبت اُندلسیوں کی زمیں
ہے تہہ گردوں اگر حسن کی تیرے نظیر قلب مسلماں میں ہے اور نہیں ہے کہیں!
دیدۂ انجم میں ہے تری زمیں آسماں آہ کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں
کون سی وادی میں ہے کون سی منزل میں ہے عشق بلا خیز کا قافلۂ سخت جاں!‘‘
اور ساتھ ہی ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کی نوید جانفرا دیتا دکھائی دیتا ہے : ؎
آب رواں کبیر! تیرے کنارے کوئی دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کے خواب
عالم نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں میری نگاہوں میں ہے اُس کی سحر بے حجاب
پردہ اٹھادوں اگر چہرہ افکار سے لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب
جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی رُوح اُمم کی حیات، کشمکش انقلاب!‘‘
اور کبھی طرا بلس کی جنگ میں غازیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہونے والی فاطمہ بنت عبداللہ سے خطاب کرتے ہوئے اپنے جذبات ملی کا اظہار کرتا ہے: ؎
’’فاطمہ! تو آبروئے امت مرحوم ہے ذرہ ذرہ تیری مشت خاک کا معصوم ہے
یہ سعادت حور صحرائی! تری قسمت میں تھی غازیان دین کی سقائی تری قسمت میں تھی
یہ کلی بھی اِس گلستانِ خزاں منظر میں تھی ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی
فاطمہ! گو شبنم افشاں آنکھ تیرے غم میں ہے نغمۂ عشرت بھی اپنے نالۂ ماتم میں ہے
رقص تیری خاک کا کتنا نشاط انگیز ہے ذرہ ذرہ زندگی کے سوز سے لبریز ہے
ہے کوئی ہنگامہ تیری تربت خاموش میں پل رہی ہے ایک قوم تازہ اِس آغوش میں!‘‘
تو کبھی ترکوں کے رنج و الم میں شریک ہو کر اور اُن کے مصائب پر اپنے کرب کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ مستقبل قریب میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی خوشخبری بھی سناتا ہےـ : ؎
’’دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی اُفق سے آفتاب اُبھرا گیا دورِ گراں خوابی
عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے شکوہِ ترکمانی ، ذہن ہندی، نطق اعرابی
سرشک چشم مسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا خلیل اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گہر پیدا
کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ وبر پیدا
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا!‘‘
اور اِس کے لیے مسلمانوں کو جو پیغام عمل دیتا ہے اُس کا اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ ؎
’’تو رازِ کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا رازداں ہوجا، خدا کا ترجماں ہو جا
ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انسان کو
اخوت کا بیان ہو جا، محبت کی زباں ہو جا
یہ ہندی، وہ خراسانی، یہ افغانی، وہ تورانی
تو اے شرمندۂ ساحل اُچھل کر بیکراں ہو جا
غبار آلودۂ رنگ و نسب ہیں بال وپر تیرے
تو اے مرغِ حرم اُڑنے سے پہلے پرفشاں ہوجا!‘‘
الغرض مسلمانانِ برصغیر پاک و ہند کا مزاج ویسے تو ابتداء ہی سے آفاقی رہا ہے، لیکن اِس صدی میں تو یہ کیفیت اپنے عروج کو پہنچی ہوئی نظر آتی ہے. اب ظاہر ہے کہ اِس مزاج اور اُفتادِ طبع اور اس انداز فکر و نظر کے وارثِ کامل اور حامل اتم مسلمانانِ پاکستان کے قلب و نظر کی ایسی قلب ماہیت کیسے ممکن ہے کہ زمینی تعلق اتنا مضبوط اور وطن کی پرستش اتنی گہری ہو جائے کہ ایک وطنی نیشنلزم(Territorial Nationalism) اس کے استحکام کی اصل اساس بن جائے.
اِس ضمن میں اِس تاریخی عجوبے پر بھی نگاہ رہے تو مناسب ہو گا کہ اِس صدی کے اوائل میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے پر ایک زبردست عوامی تحریک چلی صرف اور صرف ہندوستان میں. اور اس تحریک کی تیزی اور تندی کا عالم یہ تھا کہ نہ صرف یہ کہ پورے برصغیر کی فضا اِس شعر کی صدائے بازگشت سے گونج اُٹھی تھی کہ ؎
’’بولیں اماں محمد علی کی جان بیٹا خلافت پہ دے دو!‘‘
بلکہ ہندوؤں تک کو اِس تحریک میں شمولیت اختیار کرنی پڑی تھی. اِس لیے کہ آنجہانی موہن داس کرم چند گاندھی نے شدت کے ساتھ محسوس کر لیا تھا کہ اگر اِس وقت اِس تحریک کا ساتھ نہ دیا تو پورا پولیٹیکل کیرئیر ختم ہو کر رہ جائے گا.