اِس ضمن میں تیسری اور آخری لیکن نہایت اہم بات یہ ہے کہ اگر زمینی تعلق ہی کو قومی جذبہ کی بنیاد بنانے پر زور دیا جائے تو اِس سے اتحاد نہیں، انتشار وجود میں آئے گا. اِس لیے کہ یہ نظریہ ایک ایسے حیوان کے مانند ہے جو اپنے دشمن کو خود اپنے ہی دودھ سے پالتا ہے. چنانچہ ’’وطنی قومیت‘‘ ہی کے بطن سے ’’علاقائی قومیتیں‘‘ جنم لیتی ہیں اور اُسی کی چھاتیوں سے دودھ پی کر پروان چڑھتی ہیں.
اِس ضمن میں بھارت کا معاملہ اگرچہ پاکستان سے قدرے مختلف ہے کہ لفظ بھارت بھی کئی ہزار سال پرانا ہے اور ’’مہا بھارت‘‘ کا تصور بھی نہایت قدیم ہے. جب کہ، جیسا کہ اِس سے قبل عرض کیا جا چکا ہے، پاکستان کا تو نام ہی حادثِ محض ہے، اِس کے باوجود ’’وطنی قومیت‘‘ کے نظریے میں تقسیم در تقسیم کے جو بیج بالقوہ (Potentially) موجود ہوتے ہیں، اُس کا نقشہ وہاں بھی نظر آ رہا ہے اور علاقائی قومیتیں اور مقامی عصبیتّیں نسلی اور لسانی عوامل سے مزید تقویت پا کر نہایت تیزی اور تندی کے ساتھ سر اٹھا رہی ہیں اور بھارتی قیادت کو اپنی ملکی وحدت و سالمیت کو برقرار رکھنے کے لیے پیہم و مسلسل اور شدید و جاں گسل محنت کرنی پڑ رہی ہے. اِس پس منظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کا معاملہ بے حد نازک اور کمزور ہے. اِس لیے کہ پاکستان کا تو تصور بھی پچاس سال سے زیادہ کی تاریخ نہیں رکھتا، اور کم از کم اِس نام کے ساتھ کسی سیاسی وحدت اور اُس کی عظمت و سطوت کی کوئی تاریخ موجودنہیں، لہٰذا اگر اِس کی اساس پر وطنی قومیت کا راگ الاپا گیا تو اصل تقویت سندھی، بلوچی، پختون اور پنجابی قومیتوں کو حاصل ہو گی. اِس لیے کہ اگر فی الواقع زمینی رشتہ ہی مقدس ہے تو ایک سندھی کے لیے سندھ کے وطن ہونے کا تصور زیادہ قریبی بھی ہے اور قدیمی بھی. پھر اِس کو تقویت دینے کے لیے خاص طور پر لسانی عامل موجود ہے جو نہایت قوت کا حامل ہے. اور ظاہر ہے کہ پاکستان کا لفظ بھی نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں، اور اِس کی حدود بھی ہرگز نہ کتاب وسنت سے ماخوذ ہیں نہ اُن پر مبنی، تو پھر اگر وطن ہی کو ’’پوجنا‘‘ ہے تو سر زمین سندھ کو کیوں نہ ’’پوجا‘‘ جائے. وَقِسْ عَلٰی ذالِک.
’’وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگدل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو؟‘‘
اِس پوری بحث کا حاصل یہ ہے کہ پاکستان کے استحکام کے لیے نہ ’’تاریخی تقدس‘‘ کا عامل موجود ہے نہ ہی ’’جغرافیائی عوامل‘‘ اس کے پشت پناہ ہیں، پھر کوئی نسل، لسانی یا وطنی قومیت کا جذبہ بھی ایسا موجودنہیں ہے جو اِس کے استحکام کے لیے پختہ اساس اور سنگین بنیاد کا کام دے سکے____لہٰذااِس کے استحکام کا کل دارومدار صرف ایک چیز پر ہے اور وہ وہی ہے جس نے اِسے جنم دیا تھا____یعنی ’’مذہبی جذبہ‘‘. گویا پاکستان کا معاملہ بالکل ؏ ’’کافر نتوانی شد ناچار مسلمان شو!‘‘
والا ہے کہ اگر اِسے اپنی بقا مطلوب ہے اور یہ کسی دوسری طاقت کا طفیلی یازیردست بن کر نہیں، بلکہ باوقار اور باعزت اور حقیقتاً آزاد اور خود مختار ہو کر باقی رہنا چاہتا ہے تو اِس کے لیے کوئی اور چارۂ کار سرے سے موجود ہی نہیں ہے سوائے اِس کے کہ یہ اِسلام کا دامن تھامے اور اُسی کا سہارا لے.‘‘
یہ بات ہر اُس شخص کے لیے اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے جو کسی بھی وجہ سے پاکستان کے بقاء و استحکام کا طالب اور خواہش مند ہو. اس لیے کہ اگر کوئی بدبخت کسی سبب سے اپنے ذہن وقلب سے پاکستان کو بالفعل ’’محو‘‘ (Write-Off) ____کر ہی چکا ہو تو بات دوسری ہے، اُس کے لیے تو ہماری یہ پوری بحث ہی غیر متعلق بھی ہے اور لا یعنی بھی. لیکن جو شخص بھی دل سے پاکستان کا بقاء و استحکام چاہتا ہو اُس کے لیے انشاء اللہ العزیز ہمارا یہ تجزیہ فیصلہ کن ثابت ہو گا اور وہ اس حقیقت کو جان لے گا کہ ا گرچہ عوام کی فلاح و بہبود، انتظامی مشینری کی اصلاح و تطہیر اور مختلف علاقوں کے رہنے والوں اور مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والوں کا اعتماد و اطمینان بھی نہایت اہم اُمور ہیں اور اُن کے بغیر بھی یقینا پاکستان مستحکم نہیں ہو سکتا. اور خاص طور پر موجودہ حالت میں تو اِن کی اہمیت بہت ہی زیادہ بڑھ گئی ہے، اور ان اُمورِ ثلثہ کے ضمن میں جو شدید کوتاہی مسلسل ہو رہی ہے اگر جلد از جلد اُس کی تلافی کی صورت پیدا نہ ہوئی تو شدید اندیشہ ہے کہ یہ بچا کھچا پاکستان بھی ؏ ’’تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں!‘‘
کا مصداق بن جائے. تاہم پاکستان کے دوام و استحکام کی اصل اساس یہ چیزیں نہیں بلکہ صرف اور صرف اسلامی جذبہ ہے اور اگر وہ جلد از جلد بھرپور انداز میں بروئے کار نہ آیا تو باقی تمام چیزوں کی اصلاح کے باوجود پاکستان یا تو اپنی سا لمیت ہی کو برقرار نہیں رکھ سکے گااور اِس کے حصے بخرے ہو جائیں گے. یا اگر باقی رہے گا بھی تو کسی دوسری بڑی طاقت کا طفیلی یا زیردست ہو کر.
اب اِس سے قبل کہ ہم آگے بڑھیں اور تفصیل کے ساتھ عرض کریں کہ وہ مذہبی جذبۂ جو اَب پاکستان کے استحکام کی حقیقی ،واقعی ،مضبوط اور پائیدار بنیاد بن سکتا ہے اپنی نوعیت کے اعتبار سے قطعاً مختلف ہے، اُس ’’مذہبی جذبے‘‘ سے جس نے پاکستان کو جنم دیا تھا اور جو آج سے تقریباً نصف صدی قبل تحریک پاکستان کی رُوح رواں بنا تھا. راقم قائداعظم مرحوم کے ۱۱اگست ۱۹۴۷ء کے جملے کے بارے میں اپنی توجیہہ پیش کرنے کی جسارت کرتا ہے.
راقم کے نزدیک قائداعظم کا وہ قول نہ تو اُن کے سابقہ مؤقف سے انحراف کا مظہر تھا. اِس لیے کہ قائداعظم مرحوم خواہ ایک ’’مذہبی شخصیت‘‘ نہ تھے تاہم ہرگز دنیا کے عام سیاستدانوں کے مانند جھوٹے اور فریبی نہیں تھے، اور اُن کے کردار کی مضبوطی، ’’سیرت کی پختگی‘‘ظاہر و باطن کی یکسانیت اور صداقت و امانت کا لوہا اُن کے بدترین دشمن بھی مانتے ہیں. اسی طرح اُن کا وہ متنازعہ جملہ حالات کے وقتی دبائو کے تحت اعصاب کے متاثر ہو جانے کا بھی مظہر نہیں تھا، اِس لیے کہ قائداعظم کے اعصاب ہرگز اتنے کمزور نہ تھے، بلکہ وہ واقعتا فولادی اعصاب کے مالک تھے اور برے سے برے حالات میں بھی اُن پر کبھی گھبراہٹ یا سراسیمگی کے طاری ہونے کی کوئی مثال نہیں ملتی. راقم کے نزدیک اُن کے اِس قول کی اصل توجیہہ اور اُن کے سابق مؤقف کے ساتھ اُس کی مطابقت و موافقت کی صورت یہ ہے کہ پیش نظر اوّلاً برصغیر پاک وہند میں بسنے والے مسلمانوں کے دین ومذہب، تہذیب و ثقافت اور سیاسی و معاشی حقوق کی حفاظت و مدافعت تھی، جو قیام پاکستان کی صورت میں بتمام و کمال حاصل ہو گئی اور اِن چیزوں کے ضمن میں ہندوؤں کے نامنصفانہ بلکہ منتقمانہ روّیے سے پیدا شدہ خطرات کا سدِّباب ہو گیا ثانیاً پاکستان میں واقعتا اسلامی نظام کے بالفعل قیام کے ضمن میں اُن کے پیش نظر ایک خالص جمہوری طریقہ تھا. یعنی یہ کہ اگر پاکستان کے مسلمانوں میں جو ایک غالب اور فیصلہ کن اکثریت میں ہیں، واقعتا اسلام کے ساتھ حقیقی اور واقعی لگاؤ پیدا ہو جائے او روہ حقیقتاً اور واقعتا اسلامی تہذیب و تمدن کے فروغ اور اسلامی قانون و شریعت کے نفاذ و اجراء کے خواہاں بن جائیں تو خالص سیکولر جمہوری نظام بھی اُن کے راستے میں ہرگز رکاوٹ نہیں بن سکتا، اور اُن کے اجتماعی ارادے‘‘ (Collective Will) کے بروئے کار آنے میں ہرگز کوئی چیز مانع نہیں ہوسکتی، لہٰذا فوری طور پر دستوری اور قانونی سطح پر مذہبیت کا راگ الاپنے اور پوری دنیا کو خبردار اور چوکنا کر دینے کی ضرورت نہیں ہے. ایک جمہوری نظام میں قانون سازی کا سارا دارومدار کثرت رائے پر ہوتا ہے، لہٰذا اگر بالفرض پاکستان میں ایک سیکولر لیکن حقیقتاً جمہوری نظام قائم ہو جائے تو مسلمانوں کی عظیم اکثریت کو دین ومذہب کی جانب پیش قدمی سے کوئی چیز روک نہیں سکتی.
اب یہ تو ممکن ہے کہ کسی کو قائداعظم کی اس رائے سے اختلاف ہو اور وہ اِس طریق کار کو اسلامی نظام کے قیام اور قانون اسلامی کے نفاذ و ترویج کے لیے درست اور مؤثر نہ سمجھے، لیکن اِس توجیہہ سے وہ سارے اِشکال حل ہو جاتے ہیں جو اِس جملے کے ظاہری الفاظ سے پیدا ہوتے ہیں اور نہ کسی انحراف کا کوئی سوال باقی رہتا ہے نہ کسی وقتی اور فوری سراسیمگی کا.
ھٰذَا مَا عِنْدِی وَالْعِلْمُ عِنْدَاللّٰہِ!