اُس مذہبی جذبے کی عرضِ ثالث (Third Dimension) جو پاکستان کے دوام و استحکام کی مؤثر و محکم بنیاد بن سکتا ہے، یہ ہے کہ اِس میں ’’جمود‘‘ کی بجائے ’’حرکت‘‘ اور اجتماعی نظام کوجوں کا توں رکھنے، یعنی Status Quo کو Maintain کرنے کی بجائے تبدیلی اور انقلاب کی رُوح کار فرما ہو. اِس لیے کہ پاکستان کا داخلی انتشار اور اس کی یک جہتی و سا لمیت اور باوقار واور باعزت آزادی وخود اختیاری کے خلاف خارجی یلغار دونوں کی نوعیت ایک سیلاب کی سی ہے. اور ظاہر ہے کہ سیلاب کا مقابلہ جمود کے ذریعے نہیں کیا جا سکتا بلکہ اِس کے لیے والہانہ جذبے کی ضرورت ہے جو جوابی سیلاب کی صورت اختیار کر لے. بقول علامہ اقبال مرحوم: ؏ ’’عشق خود اِک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام!‘‘

اور الحمدللہ کہ ہمیں اس کے لیے ہر گز نہ کسی تکلف یا تصنع کی ضرورت ہے، نہ کسی جدید نظریے اور نظام کے دَر پر مرعوبانہ اور مقلدانہ دریوزہ گری کی اِحتیاج اِس لیے کہ: اولاً اسلام اپنی اصل کے اعتبار سے ہے ہی ایک انقلابی تحریک، اور یہ اِس بنا پر کہ اسلام صرف ’’مذہب‘‘ نہیں کامل ’’دین‘‘ ہے، جو صرف عقائد و عبادات اور چند معاشرتی و سماجی رسومات سے عبارت نہیں ہے، بلکہ ان سب پر مستزاد ایک کامل و اکمل، متوازن و معتدل اور عادلانہ ومنصفانہ معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظام پر مشتمل ہے. اور ازرُوئے قرآنِ حکیم بعثت محمدی علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام کا مقصد ہی اِس نظام حق کا پورے نظام زندگی پر غلبہ ہے. بفحوائے الفاظ قرآنی: 

ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ. 
(۱
یعنی ’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسول (محمدؐ ) کو الہدیٰ(قرآن حکیم) اور دین ِ حق (اسلام) کے ساتھ تاکہ غالب کر دے اُسے کل کے کل دین(نظام زندگی) پر.‘‘

اور اسی مقصد 
(۱) (سورۂ توبہ آیت ۳۳، سورۂ فتح آیت ۲۸، اور سورۂ صف آیت ۹کے حصول و تکمیل کے لیے جدوجہد اور اس کے ضمن میں بذل نفس اور انفاق مال کی پُر زور دعوت دیتا ہے. قرآن حکیم ایمان کے تمام دعویداروں کو ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کی فرضیت کے عنوان سے بفحوائے الفاظِ قرآنی: 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۱۰﴾تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ 

’’اے اہل ایمان! کیا میں تمہیں وہ تجارت بتاؤں جو تمہیں عذابِ الیم سے چھٹکارا دلا دے؟ ایمان (پختہ) رکھو اللہ اور اس کے رسول ؐ پر اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے اموال اور جانوں کے ساتھ.‘‘
(سورۂ صف آیات: ۱۰/۱۱

اور اس جہاد فی سبیل اللہ کو شرط لازم اور رکن رکین قرار دیتا ہے ایمان حقیقی کا، سورۃ الحجرات کی آیت نمبر ۱۵ کی رو سے: 

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵﴾ 

’’مؤمن تو صرف وہ ہیں جو ایمان لائے اللہ اور اُس کے رسولؐ پر، پھر ہرگز شک میں مبتلا نہیں ہوئے اور جہاد کیا انہوں نے اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ، صرف یہی لوگ (دعوۂ ِ ایمان میں) سچے ہیں.‘‘ گویا ؎ 

میری زندگی کا مقصد ترے دیں کی سرفرازی میں اسی لیے مسلماں، میں اسی لیے نمازی!

کے مصداق پورے نظامِ زندگی پر اللہ کے عطا کردہ کامل سماجی و معاشی و سیاسی نظام 
(Socio-Politico-Economic System) کا غلبہ ہر بندۂ مومن کی زندگی کا اصل مقصد اور اُس ’’جہادِ زندگانی‘‘ کا اصل ہدف ہے جس کے لوازم و شرائط اور اوزار و ہتھیار ہیں: ایمان و یقین کی دولت، پیہم سعی و جہد کا مادہ اور محبت اور اخوت کی قوتِ تسخیر، بقول علامہ اقبال مرحوم: ؎

یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں!

ثانیاً: ہم پر اللہ تعالیٰ کا مزید فضل و کرم یہ ہے کہ وطن عزیز پاکستان قائم ہی دین کے اِس حرکی تصور 
(Dynamic Concept) پر ہوا تھا.چنانچہ ایک جانب پاکستان کے بانی و موسس قائداعظم محمد علی جناح مرحوم نے واضح طور پر یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’ہم پاکستان اس لیے حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ اس کے ذریعے عہد حاضر میں اسلام کے ابدی اور زرّین اصولِ حریت و اخوت و مساواتِ انسانی(Human Freedom Fraternity and Equality) کا عملی نمونہ پیش کریں.‘‘ (روایت بالمعنیٰ) اور ایک موقع پر پاکستان کے دستور کے بارے میں بھی ارشاد فرمایا تھا کہ ’’ہمارا دستور آج سے چودہ سو سال قبل قرآن کی شکل میں مدون ہو گیا تھا.‘‘ (روایت بالمعنیٰ) اور دوسری جانب مفکر و مصور پاکستان علامہ اقبال ؒ نے اپنی زندگی کے آخری ایام کی الہامی نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں ابلیس کی زبانی ابلیسی قوتوں کو لاحق ہونے والے سب سے بڑے خطرے اور اندیشے کی نشاندہی کی تھی، یعنی ؎

عصر حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبر کہیں!

تو اِس کے ضمن میں علامہ مرحوم نے نہ صرف یہ کہ اسلام کے پورے سماجی، سیاسی اور اقتصادی نظام کے بنیادی اُصولوں کو دریا کو کوزے میں بند کرنے کے انداز میں بیان کر دیا تھا، بلکہ دراصل تحریک پاکستان کا پورا ’’منشور‘‘ 
(Manifesto) پیش کر دیا تھا: ؎

الحذر! آئین پیغمبرؐ سے سو بار الحذر!
حافظ ناموسِ زن، مرد آزما، مرد آفریں
موت کا پیغام ہر نوعِ غلامی کے لیے
نے کوئی فغفور و خاقان نے گدائے رہ نشیں
کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک و صاف
منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں!
اِس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب!
پادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمیں!!

نہ صرف یہ بلکہ علامہ اقبال نے تو خاص طور پر موجودہ ظالمانہ اور استحصالی معاشی نظام کے استیصال اور بیخ کنی کے لیے باضابطۂ ’’انقلاب‘‘ کا نعرہ بھی بلند کر دیا تھا : ؎

خواجہ از خونِ رگ مزدور سازد لعل ناب
از جفائے دِہ خدایاں کشت دہقاناں خراب 
انقلاب! انقلاب____ اے____ انقلاب

اِس ضمن میں کسی کو یہ مغالطہ یا اندیشہ لاحق نہ ہو کہ اگر سرمایہ داری اور زمینداری کے خلاف انقلابی نعرہ لگایا گیا تو یہ اسلام کی بجائے کسی اور ’’ازم‘‘ کی جانب رُجوع و التفات ہو گا، اس لیے کہ واقعہ یہ ہے کہ شخصی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے اِن دونوں کی جڑیں جس طرح اسلام کاٹتا ہے اور کوئی نظام نہیں کاٹ سکتا. چنانچہ ’’ربوا، کی قطعی اور مؤکد ترین حرمت کے ذریعے ’’سرمایہ داری‘‘ کی بیخ کنی ہو جاتی ہے، اگرچہ ’’سرمایہ کاری‘‘ کے لیے صحت مند فضا، یہاں تک کہ اُس کے ضمن میں مقابلہ ومسابقت تک میدان برقرار رہتا ہے. اسی طرح خواہ امام اعظم امام ابوحنیفہؒ اور امام ِ دارالہجرت امام مالکؒ کے متفقہ فتویٰ کو اختیار کر لیا جائے کہ مزارعت (Absentee Land Lordism) کی ہر صورت حرام مطلق ہے، خواہ فقہ حنفی کے اِس فتویٰ پر عمل کر لیا جائے کہ مفتوحہ ممالک کی اراضی کسی کی انفرادی ملکیت نہیں ہوتیں بلکہ اسلامی ریاست کی اجتماعی ملکیت ہوتی ہیں، دونوں صورتوں میں جاگیرداری اور مروجہ زمینداری کا قلع قمع ہو جاتا ہے. (اپنے حالیہ سفر ابوظبی کے موقع پر ایک اہم اور قابل اعتماد شخصیت کے ذریعے معلوم ہوا کہ ملک شام کے بعثی انقلاب سے پہلے کے دَور کے ایک صدر نے جو آج کل ابوظبی میں جلاوطنی کی زندگی گذار رہے ہیں، اُنہیں یہ بتایا کہ شام میں ۱۹۴۵ء تک سابقہ خلافت عثمانیہ ہی کا بندوبست اراضی چل رہا تھا اور اُس کی رو سے کل اراضی بیت المال کی ملکیت تھیں. آئندہ وہاں جانا ہوا تو اِن شاء اللہ اُن صاحب سے خود ملاقات کر کے توثیق حاصل کروں گا.)
’’الغرض پاکستان کے بقا و دوام اور اُس کی ترقی و استحکام کی واحد ممکنہ اساس وہ مذہبی جذبہ بن سکتا ہے جو قومی و نسلی نہیں بلکہ حقیقی و عملی اسلام اور اُس کی بھی کسی متجددانہ اور دانشورانہ تعبیر نہیں، بلکہ علمائِ کرام کے مصدقہ تصورات پر مبنی ہو اور نری جامد مذہبیت نہیں بلکہ ایک متحرک انقلابیت کی صورت اختیار کرے.‘‘

اور یہ چیز خود اسلام کے اعتبار سے بھی ’’تجدد‘ نہیں بلکہ صرف ’’تجدید‘‘ کا مظہر ہو گی، اور پاکستان کے نقطۂ نگاہ سے بھی کسی نئی منزل کی جانب رخ موڑنے کی نہیں بلکہ ؏ ’’کبھی بھولی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو!‘‘

کے مصداق اپنے تاسیسی نظریہ و مقصد کی جانب رُجوع کے مترادف ہو گی. (انشاء اللہ )