ہماری ایک عظیم اکثریت کا دین و مذہب کے ساتھ کوئی عملی تعلق نہیں ہے

ان میں سب سے بڑا دائرہ جس کی خارجی حدود پورے معاشرے کو محیط ہیں، اُن لوگوں پر مشتمل ہے جن کا دین ومذہب کے ساتھ سرے سے کوئی عملی تعلق باقی نہیں رہا. ماسوائے اُن چند ناگزیر ر تمدنی اور سماجی امور کے جن میں دین و مذہب کے خلاف کسی روش کا اختیار کرنا مذہب سے علی الاعلان قطع تعلق کے بغیر ممکن نہیں ہوتا. یعنی شادی بیاہ کا معاملہ، میّت کی تکفین وتدفین سے متعلق رسومات اور کچھ مذہبی تہوار وغیرہ.

اِس سلسلے میں، میں جب زور دے کر کہتا ہوں کہ ہماری عظیم اکثریت کا مذہب کے ساتھ سرے سے کوئی تعلق نہیں ہے تو اُس سے میرے احساس کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اور میں ہر شخص کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ دین ومذہب کے ساتھ عملی تعلق کا چاہے کوئی معیار 
(Criterion) متعین کر لے، جب وہ اس پر اپنے موجودہ معاشرے کو پرکھے گا تو اُس کے سامنے بعینہٖ وہی نتیجہ آئے گا جو اوپر بیان کیا جا چکا ہے. حقیقت یہ ہے کہ ہماری اکثریت کا اِس کے سوا کہ جب ان کے یہاں شادی ہوتی ہے تو پھیرے نہیں پھڑتے بلکہ کوئی مولوی صاحب نکاح ہی کی رسم ادا کرتے ہیں____ یا کوئی مرجاتا ہے تو اُسے جلایا نہیں جاتا بہرحال نماز جنازہ ہی ادا کی جاتی ہے اور تکفین و تدفین ہی کا معاملہ ہوتا ہے____ یا یہ کہ ہولی یا دیوالی یا کرسمس نہیں منائے جاتے، عید و بقر عید ہی کے تہوار منائے جاتے ہیں، دین و مذہب کے ساتھ کوئی اور عملی تعلق موجود نہیں ہے____ اسلام کے اوامر و نواہی کی مفصل فہرست اور حلال و حرام کا تفصیلی خاکہ تو دُور کی بات ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ پنجگانہ کو کفر اور اسلام کے مابین حد فاصل قرار دیا ہے، خواہ اِس معیار کو سامنے رکھ لیا جائے یا اس سے بھی آگے بڑھ کر بلا عذر شرعی مسلسل تین جمعوں کی غیر حاضری پر تو صاف وعید سنا دی گئی ہے کہ اللہ کو ایسے شخص کے بارے میں کوئی پرواہ نہیں ہے کہ وہ نصرانی ہو کر مرے یا یہودی ہوکر، تو خواہ اِس پیمانے سے ناپ لیا جائے. بہرحال آپ جس پیمانے سے بھی ناپیں گے نتیجہ ایک ہی نکلے گا اور وہ یہ کہ ہماری قوم کی ایک عظیم اکثریت کا دین و مذہب سے کوئی واقعی اور عملی تعلق موجود نہیں ہے.

پھر ایسا نہیں ہے کہ یہ صورت حال معاشرے کے کسی خاص طبقہ کی ہو____ ایک عام مغالطہ پیدا ہو گیا ہے یا پیدا کر دیا گیا ہے کہ یہ معاملہ صرف اُمراء یا اعلیٰ طبقہ کا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ حال ہماری پوری سوسائٹی کا بحیثیت مجموعی ہے. چنانچہ اُمراء کی اکثریت بھی اِسی حال میں ہے اور غرباء کی بھی، کارخانہ داروں کی اکثریت کا حال بھی یہی ہے اور مزدوروں کا بھی، زمینداروں کی
اکثریت بھی دین سے اتنی ہی دور ہے اور کاشتکاروں کی بھی، گلبرگ اور کلفٹن کے باسی بھی اکثر و بیشتر اسی حال میں ہیں اور جھونپڑیوں کے مکین بھی____ الغرض ہماری پوری سوسائٹی کا چاہے جس زاویہ سے (Crosssection) لے لیا جائے، صورتِ معاملہ واحد ہے. صرف اس ایک فرق کے ساتھ کہ اُمراء اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقات کے ایک معتدبہ اور غالب حصے میں اِس عملی روش کی پشت پر ایک فکری الحاد اور ذہنی ارتداد بھی موجود ہے، جب کہ عوام الناس کے اذہان میں کوئی واضح چیز موجود نہیں. وہ صرف ایک رَو میں بہے چلے جا رہے ہیں جو اکثر و بیشتر انہی اعلیٰ طبقات کے زیر اثر چل رہی ہے____ الغرض یہ ہے ہماری قوم کی غالب اکثریت کا حال!