اِن تینوں دائروں کے اندر ایک نہایت چھوٹا سا دائرہ ہے جسے ہم مذہب کے لیے سر گرم کار (Religious Activists) لوگوں کا حلقہ کہہ سکتے ہیں، جس میں ہماری کل آبادی کی بمشکل کی ایک فی صد بلکہ اُس سے بھی بہت کم تعداد شامل ہے. یہ حلقہ بہت سی خالص مذہبی یا نیم مذہبی اور نیمسیاسی جماعت پر مشتمل ہے، جن کی جڑیں دوسرے اور تیسرے دائروں میں دُور دور تک پھیلی ہوئی ہیں، جن سے انہیں اخلاقی تائید اور مالی تعاون کی صورت میں غذائیت حاصل ہوتی رہتی ہے____ اِن میں سے دو تو ’’جماعتیں‘‘ ہیں اور کم و بیش نصف درجن ’’جمعیتیں‘‘____ جماعتوں میں ایک تبلیغی جماعت ہے جو خالص مذہبی اور بالکل غیر سیاسی خطوط پر کام کر رہی ہے اور دوسری جماعت اسلامی ہے جو اس کے برعکس سیاست کے میدان میں بہت آگے نگل گئی ہے، اور اس خار زار میں کچھ زیادہ ہی اُلجھ کر رہ گئی ہے. اِس بعد المشرقین کے ساتھ ساتھ ان میں دو باتیں مشترک بھی ہیں. ایک یہ کہ اِن دونوں کی تاریخ تقریباً نصف صدی پر پھیلی ہوئی ہے، اور دوسرے یہ کہ ان دونوں کو اصل تائید و تقویت دائرہ ثالث سے مل رہی ہے اور ان کی جڑیں زیادہ تر اِسی حلقہ میں قائم ہیں____ ان کے بالمقابل اہلحدیث، دیوبندی اور بریلوی علماء پر مشتمل ’’جمعیتیں‘‘ ہیں، جن کی مزید تقسیم اور تسمیہ کا سلسلہ کچھ ایسا پیچ در پیچ ہے کہ عام آدمی کی سمجھ میں انے والا نہیں، بہرحال ان میں بھی دو اُمور مشترک ہیں. ایک یہ کہ ان میں سے تقریباً ہر ایک اپنی پشت پر لگ بھگ پوری صدی کی تاریخ رکھتی ہے اور دوسرے یہ کہ ان کی اصل جڑیں دائرہ دوم میں قائم ہیں اور وہیں سے ان کے تغذیہ و تقویت کا سامان فراہم ہوتا ہے.

مذہب کی نام لیوا، بلکہ علمبردار جماعتوں اور جمعیتوں کے بارے میں سب سے زیادہ نمایاں المیہ ان کا باہمی اختلاف بلکہ مخالفت ہے، جو حددرجہ مکروہ الزام تراشی بلکہ دُشنام طرازی کی حد تک پہنچ جاتی ہے. 
اور اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں اب ان سب کے مجموعی اثرات بھی کچھ بہت زیادہ نہیں ہیں، تاہم جس مایوس کن شکست کا سامنا مذہب کے نام لیوائوں کو ملک کے عام انتخابات میں کرنا پڑتا ہے، واقعہ یہ ہے کہ اِس میں بہت حد تک دخل اِس باہمی تفرقہ بازی اور سر پھٹول کو حاصل ہے. چنانچہ ہمارے معاشرے کے اُن طبقات کو جو دین و مذہب کے مستقبل سے کسی قدر دلچسپی رکھتے ہیں، اِس صورت حال سے فی الواقع بہت صدمہ پہنچتا ہے، جس کی ٹیسیں اکثر لوگوں کو شدت کے ساتھ محسوس ہوتی رہتی ہیں. اور ہمارے یہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جن کے دلوں میں یہ حسرت بھری تمنا موجود ہے کہ کسی طرح مختلف فرقوں اور گروہوں کے علماء و زُعماء اور مختلف مذہبی جماعتیں متحد ہو کر کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں یا کم از کم یہ جماعتیں اور جمعیتیں اپنے اپنے طریقہ ہائے کار میں اعتدال کی روش اختیار کر لیں. چنانچہ اِس ذیل میں بہت سے لوگ انہیں مخلصانہ مشوروں سے نوازتے بھی رہتے ہیں.

میری حقیر رائے میں ان نیک تمنائوں کا برآنا آسان نہیں ہے. اس لیے کہ نہ یہ جماعتیں اور جمعتیں کوئی آج قائم ہوئی ہیں اور نہ ہی ان کے طریقہ ہائے کار اتنے ’’حادث‘‘ ہیں، بلکہ جیسا کہ اِس سے قبل عرض کیا جا چکا ہے کہ اُن کی پشت پر پوری پوری صدی یا کم از کم نصف صدی کی تاریخ ہے اور اس طویل عرصہ کے دوران میں ان کے مخصوص نقطہ ہائے نظر، طریق ہائے کار اور مزاج و اُفتادِ طبع پختہ ہوتے چلے گئے ہیں____ اوراب اِن میں کسر و انکسار اور ترمیم و تغیر ناممکن نہ سہی نہایت مشکل ضرور ہے، تاہم ملک و ملت کے خیر خواہوں کو اِس کے ضمن میں پوری ہمت و عزیمت کو بروئے کار لانا چاہئے. اِس لیے کہ کسی بھی موثر اور نتیجہ خیز تعمیری کوشش کے آغاز کے لیے اِس کٹھن منزل کا سرکرنا ناگزیر ہے.