ہمارے قومی اور ملی وجود کی تصویر کا روشن اور تابناک رُخ بالکلیہ ارادہ ٔمشیت ایزدی اور تائید و نصرت الٰہی کا مظہر ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان کا عالم وجود میں ظہور بھی ایک خالص ’’معجزہ‘‘ کی حیثیت سے ہوا تھا اور اُس کا اب تک قائم رہنا بھی ’’معجزات‘‘ ہی کے تسلسل کامرہونِ منت ہے.

یہ امور اگرچہ اصلاً ؏ ’’رازِ خدائی ہے یہ، کہ نہیں سکتی زباں!‘‘

کے ذیل میں آتے ہیں اور اس قبیل کے اِکّا دُکّا واقعات کو تو پہچاننا بھی صرف اُن لوگوں کا کام ہے جن کا باطن منور ہو اور جو ؏ ’’گاہ مری نگاہ تیز چیر گئی دل وجود!‘‘

کی کیفیت کے ضمن میں رُسوخِ تام حاصل کر چکے ہوں____ تاہم جب ا ِن ’’معجزات‘‘ کا تسلسل ہو اور خارِقِ عادتِ واقعات پے در پے ظہور پذیر ہو رہے ہوں تو ایک عامی انسان بھی ان کا ادراک کر سکتا ہے، بشرطیکہ اُسے ایک ایسے قادرِ مطلق اور فاعل حقیقی خدا پر کسی درجے میں ایمان حاصل ہو، جو اس کائنات کا خالق، باری اور مصور ہی نہیں، مالک، حاکم اور مدبر بھی ہے. چنانچہ کل سلسلۂ اسباب و علل اُس کے قبضۂ قدرت میں ہے اور نتائج و عواقب کا ظہور بالکلیہ اسی کے اذن و مشیت کے تابع ہے، یہاں تک کہ ایک پتہ بھی اُس کے علم و اِذن کے بغیر جنبش نہیں کر سکتا اور ایک حدیث نبویؐ کے مطابق ’’تمام انسانوں کے دل اس کی دو انگلیوں کے مابین ہیں، انہیں جدھر چاہے پھیر دیتا ہے.‘‘

چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کے قیام و بقا کے ضمن میں ’’معجزانہ‘‘ نوعیت کے واقعات کا ظہور اس تسلسل کے ساتھ ہوا ہے کہ کوئی بالکل ہی کو رباطن ہو تو اوربات ہے، 
ورنہ ہر صاحب دیدۂ بینا کو صاف نظر آتا ہے کہ پاکستان کا قیام ارادہ و مشیت خداوندی کے ایک خصوصی ظہور کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کا وجود یقینا تدبیر الٰہی کے کسی طویل المیعاد منصوبے کی ایک اہم کڑی کی حیثیت رکھتا ہے.

آگے بڑھنے سے پہلے معجزات اور خارقِ عادتِ واقعات کے بارے میں بعض اہم اُمور کو ذہن نشین کر لینا چاہئے.

اوّلاً یہ کہ اُن مخلوقات کے ضمن میں جو نہ صاحب ارادہ و شعو رہوں، نہ سزا وارِ جزاء و سزا، معجزات، طبعی قوانین 
(Physical Laws) کو علانیہ توڑ اور ’’پھاڑ‘‘ کر ظاہر ہوتے رہے ہیں،____ جیسے کبھی ایک چٹان سے حاملہ اونٹنی برآمد ہو گئی، کبھی آگ ابراہیم علیہ السلام کے لیے گل و گلزار بن گئی، کبھی موسیٰ علیہ السلام کے عصا نے زندہ و متحرک اژدہے کی صورت اختیار کر لی اور کبھی اُس کی ایک ہی ضرب سے سمندر پھٹ گیا وغیر ذالک! 

لیکن انسان چونکہ ایک مکلف اور مستحق جزا و سزا وجود کا حامل ہے، جس کے لیے ارادہ و اختیار کی آزادی لازمی و لابدی ہے، لہٰذا انسانی معاملات میں اللہ تعالیٰ کے خصوصی ارادہ و مشیت کا ظہور کبھی اس طور سے نہیں ہوتا کہ انسان کے ارادہ و اختیار کی آزادی سلب ہو جائے، بلکہ قدرت و حکمت خداوندی کا کمال یہ ہے کہ ارادہ واختیار کی جیسی اور جتنی کچھ آزادی انسانوں کو عطا ہوئی ہے وہ بھی برقرار رہتی ہے اور اس کے باوصف تدبیر امر کے ضمن میں اللہ تعالیٰ کا خصوصی تصرف بھی بروئے کار آتا رہتا ہے اور اس طرح قدرت کے ارادے اور منصوبے تکمیل کو پہنچتے رہتے ہیں. چنانچہ کبھی کسی دشمن کی لات کسی کبڑے کے لیے جسمانی عیب کے ازالے کا سبب بن جاتی ہے، اور کبھی برادرانِ یوسف علیہ السلام کا یوسف علیہ السلام کو حسد سے مغلوب ہو کر چاہِ کنعان میں پھینک دینا. ’’تدبیر کند بندہ تقدیر زندخندہ‘‘ کے مصداق یوسف علیہ السلام کے دنیوی عروج کا زینہ اور تمکن فی الارض کا ذریعہ بن جاتا ہے، 
وقس علٰی ذالک____ ! 

دوسری اہم حقیقت جو پیش نظر رہنی چاہئے یہ ہے کہ جب کہ انسان ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے قانون تشریعی کا پابند ہے، جس کے ضمن میں مسلم اور غیر مسلم کی تقسیم تو بہت ہی اہم ہے کہ اِسی پر اسلامی تمدن و معاشرت کے پورے نظام کی اساس اور اسلامی ریاست و حکومت کے پورے ڈھانچے 
کی بنیاد قائم ہوتی ہے. اسی طرح محسن و متقی اور فاسق و فاجر کا فرق بھی بہت اہم ہے جو اُخروی انجام پر اثر انداز ہوتا ہے، لیکن اُمور تکوینیہ کے ضمن میں قدرت خداوندی اِن حدود و قیود کی پابند نہیں ہے، بلکہ اِن سے بالکلیہ آزاد اور بلند و بالا سطح پر تدبیر امر کرتی ہے____ چنانچہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب ارادۂ خداوندی کسی قانونی و فقہی اعتبار سے مسلمان، لیکن اعمال و اخلاق کے اعتبار سے فاسق و فاجر قوم کی تنبیہہ اور سرزنش کے لیے حرکت میں آتا ہے تو کوئی کافر ومنکر اور باغی ومشرک قوم ’’دست قضا‘‘ میں شمشیر کی صورت اختیار کر لیتی ہے، جیسے سابقہ امت مسلمہ یعنی بنی اسرائیل کے ضمن میں کبھی بخت نصر اور ٹائیٹس رومی اور موجودہ اُمت مسلمہ کے لیے کبھی چنگیز و ہلاکو اور کبھی ہنود و یہود!____ اِسی طرح کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ قدرت خداوندی کسی مسلمان قوم کی فلاح و بہبود، حتیٰ کہ اپنے دین کی حفاظت و مدافعت کے لیے کسی عامی و عاصی مسلمان سے کوئی خدمت لے لیتی ہے، جیسے حدیث نبویؐ میں وارد ہوا ہے کہ: 

اِنَّ اللّٰہَ یُؤَیِّدُ الدِّیْنَ بِالرَّجُلِ الْفَاجِرِ 
(صحیح مسلم: کتاب الایمان) 
’’اللہ تعالیٰ اپنے دین کی خدمت و نصرت فاسق و فاجر انسان کے ذریعے بھی کرتا ہے.‘‘

جس کی نمایاں ترین مثال بھٹو صاحب کے ہاتھوں قادیانیوں کا غیر مسلم قرار دیا جانا ہے.بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر قدرتِ خداوندی کبھی اسلام کی کوئی جزوی خدمت کسی غیر مسلم یا انتہائی بر خود غلط اور حددرجہ ضال اور مضل انسان سے بھی لے لیتی ہے، جیسے برصغیر پا ک وہند میں انگریزی دور کے آغاز میں اسلام پر عیسائی پادریوں کی جارحانہ پیش قدمی کی روک تھام کے ضمن میں راجہ رام موہن رائے کی تالیف 
’’تحفۃ الموحدین‘‘ اور بعد میں آریہ سماجیوں کے حملے سے مدافعت کے ضمن میں آنجہانی غلام احمد قادیانی کی تصنیف ’’سرمہ چشم آریہ‘‘____ !

یہ حقیقت کہ پاکستان کا قیام ایک ’’معجزہ‘‘ تھا پورے طور پر تو اُسی وقت سمجھ میں آ سکتی ہے جب برصغیر پاک و ہند میں ہندو مسلم مسئلے کے پورے تاریخی پس منظر کو سمجھا جائے اور خاص طور پر ان نئی پیچیدگیوں کا فہم و شعور اور اُن نئی جہتوں کا ادراک حاصل کیا جائے، جن کا اضافہ اِس انتہائی اہم و نازک مسئلے میں انگریزوں کے لگ بھگ دو صد سالہ دور اقتدار میں ہوا تھا، جن کے نتیجے میں صورتِ حال بالکل برعکس ہو گئی تھی اور شدید اندیشہ پیدا ہو گیا تھا کہ مستقبل میں ماضی کے حاکم، محکوم اور محکوم حاکم بن جائیں گے. اِس لیے کہ اسی طرح یہ حقیقت پورے طور پر منکشف ہو سکتی ہے کہ پاکستان کا قیام اُسی ارادۂ خداوندی کا ظہور تھا جو لگ بھگ سواتین ہزار سال قبل مصر میں ظاہر ہوا تھا، جس کا ذکر قرآن حکیم میں سورہ قصص کی آیت ۵ میں ان الفاظ میں ہوا ہے: 

وَ نُرِیۡدُ اَنۡ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا فِی الۡاَرۡضِ 

’’اور ہم چاہتے تھے کہ ان لوگوں پر احسان فرمائیں جو ملک میں دبا لیے گئے تھے.‘‘

لیکن ظاہر ہے کہ یہ بحث بہت طویل ہے اور موجودہ تحریر کی تنگ دامانی اس کی متحمل نہیں ہو سکتی____ تاہم ان شاء اللہ العزیز ایک صاحب عقل و بصیرت اِنسان کے لیے برصغیر کے ۱۹۴۰ء تا۱۹۴۷ء کے حالات و واقعات کا سرسری جائزہ بھی اِس حقیقت کی وضاحت کے لیے کافی ہو گا کہ پاکستان کا قیام ایک ’’معجزہ‘‘ اور مشیت ایزدی و قدرت خداوندی کے خصوصی ظہور کی حیثیت رکھتا ہے.

۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو لاہور کے تاریخی اجلاس میں ’’قرارداد پاکستان‘‘ منظور ہونے کے بعد برصغیر کے میدانِ سیاست میں متحارب و متقابل قوتوں کے جائزے کا لب لباب یہ بنتا ہے کہ:

ایک جانب پوری ہندو قوم تھی جو ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کو اپنے دھرم یعنی ’’دین و ایمان‘‘ کا مسئلہ بنائے ہوئے تھی اور اُس کے نزدیک بھارت کی تقسیم ’’گئو ماتا‘‘ کے ٹکڑے کر دینے کے مترادف تھی، اور یہ معاملہ اُن کے نزدیک کس قدر جذباتی ونوعیت کا تھا اس کا اندازہ گاندھی جی کے اُس تاریخی جملے سے لگایاجا سکتا ہے جو تقسیم ہند کے آخری فیصلے سے کچھ ہی دن پہلے اُن کی زبان سے نکلا تھا یعنی ’’پاکستان صر ف میری لاش پر بن سکتا ہے.‘‘ (مولانا ابوالکلام آزاد، انڈیاونز فریڈم، صفحہ ۱۶۷)____ یہاںیہ واضح رہے کہ گاندھی جی کوئی عام اورغیر اہم انسان نہیں تھے، بلکہ جدید ہند کے بہت بڑے سیاسی لیڈر اور ہندوؤں کے لیے تو ایک عظیم رہنما نہیں’’مہاتما‘‘ تھے اور اُنہیں عام طور پر جذباتی اور مشتعل مزاج انسان نہیں سمجھا جاتا تھا.

’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے اِس قدر جذباتی اور پرجوش حامی تو اگرچہ صرف ہندو ہی تھے، لیکن انہیں اِس معاملے میں بھرپور تائید حاصل تھی ہندوستان کی جملہ غیر مسلم اقوام کی____ جیسے سکھ، 
پارسی اور عیسائی____ اوراِس پر مستزادیہ کہ خود مسلمانوں کے بعض فعال عناصر تقسیم ہند کے خلاف تھے جن میں اہم ترین معاملہ تو مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کی زیر قیادت کانگریسی مسلمانوں اور مولانا حسین احمد مدنی ؒ کی زیر سر کردگی جمعیت علمائے ہند اور اُن کے متوسلین اور معتقدین کا تھا. پھر پنجاب میں مجلس احرار اسلام ایسی زور دار عوامی خطباء و مقررین پر مشتمل جماعت تھی، اور سرحد میں خدائی خدمت گاروں جیسا پرجوش عوامی کارکنوں کا گروہ تھا.

اِدھر ہندوخود بھی مسلمانوں کے مقابلے میں نہ صرف یہ کہ تعداد کے اعتبار سے لگ بھگ تین گنا تھے، بلکہ دولت و سرمایہ اور تجارت و صنعت پر تو تقریباً بلا شرکت غیرے قابض تھے اور تعلیم، قومی بیداری اور سیاسی تنظیم کے اعتبار سے بھی آگے تھے، اور’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے پلڑے میں اضافی وزن پڑ رہا تھا دیگر غیر مسلم اقوام اور نیشنلسٹ مسلمانوں کا____ اوران سب کے مقابلے میں تھی مسلمانوں کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرنے والی صرف مسلم لیگ، گویا معاملہ بالکل وہی تھا کہ ؏ 

’’لڑا دے ممولے کو شہباز سے!‘‘ یا ؏ ’’اُلجھ رہے ہیں زمانے سے چند دیوانے!‘‘

چنانچہ اعداد و شمار، حالات و واقعات اور اجتماعیات و عمرانیات کے کسی بھی اصول اور قاعدہ کی رُو سے ’’مطالبہ پاکستان‘‘ ایک دیوانے کے خواب اور مجذوب کی بڑ یا زیادہ سی زیادہ سودے بازی کے حربے 
(Bargaining Technique) سے بڑھ کر نظر نہ آتا تھا.
اِس پر مزید اضافہ کیجئے اس کا کہ برطانیہ میں اُس وقت لیبر پارٹی کی حکومت تھی جس کی ہمدردیاں واضح طور پر کانگریس کے ساتھ تھیں اور ہندوستان کی وحدت و سالمیت برقرار رکھنے کو اُس نے اپنی پالیسی کا سنگ بنیاد 
(Corner Stone) بنا لیا تھا.چنانچہ ۱۹۴۶ء میں جب اِس حکومت کے فرستادہ وزارتی مشن نے بنیادی منصوبہ پیش کیا تو اُس کی تمہید کے طور پر واضح الفاظ میں ہندوستان کی تقسیم کو غیر معقول اور ناقابل عمل قرار دے کر رد کر دیا تھا____ مزید برآںاُس وقت تو یہ حقائق صرف اہل نظر کی نگاہ اور واقف حال لوگوں کے علم میں ہوں، گے لیکن اب تو یہ تمام راز طشت ازبام ہو چکے ہیں کہ شخصی اعتبار سے برطانوی وزیراعظم اٹیلے کو مسلم لیگ اور قائداعظم سے ذاتی بغض تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن، جس کے ہاتھوں قدرت نے ہندوستان کو بالفعل تقسیم کرایا، ایک طرف خود گاندھی کا چیلا تھا تو دوسری طرف پنڈت نہرو کی دوستی صرف اُس ہی سے نہیں، اُس کے پورے ’’خاندان‘‘ سے تھی. جب کہ قائداعظم سے اُسے ذاتی پر خاش اور نفرت تھی.

اُدھر مسلم قوم جس نے پاکستان کا مطالبہ کیا تھا جس انتشارِ ذہن و فکر اور پراگندگی عمل کا شکار اور ہمت و جرأت کے زوال سے دو چار تھی، اُس کا اندازہ اس واقعے سے کیا جا سکتا ہے کہ چند ہی سال قبل مستقبل کے قائداعظم اور معمارِ پاکستان نے قوم سے بددل اور مایوس ہو کر وطن عزیز سے باضابطہ ہجرت کر لی تھی اور مستقل طور پر انگلستان میں جا کر ڈیرا لگایا تھا، اور ہندوستان کے لوگوں کے بارے میں یہ الفاظ کہے تھے کہ:

’’ہندو کوتاہ اندیش ہیں اور میرے خیال میں ناقابل اصلاح! اور مسلمانوں کی صفیں ایسے کم ہمت لوگوں سے بھری پڑی ہیں جو میرے ساتھ بات کرنے کے بعد ڈپٹی کمشنر سے پوچھیں گے کہ کیا کرنا چاہئے. ان دو گروہوں کے مابین مجھ جیسے آدمی کی جگہ کہاں ہے؟ ‘‘ (شیخ محمد اکرام: ماڈرن مسلم انڈیا)

مزید برآں خود اس جماعت اور اُس کے وابستگان کا عالم کیا تھا جس نے حصول پاکستان کے لیے کمر کسی تھی، اِس کا اندازہ کرنے کے لیے قائداعظم کے اُس مشہور جملے کو ذہن میں تازہ کر لینا کافی ہے کہ ’’میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں.‘‘ 

ان حالات واقعات کے مد نظر کون کہہ سکتا ہے کہ
برصغیر کی تقسیم اور پاکستان کا قیام کسی ’’معجزہ‘‘ سے کم تھا!! 

____ اور اگرکسی کو اس حقیقت کے تسلیم کرنے میں تامل ہو اور شک و شبہ کی گنجائش نظر آئے تو اس ضمن میں آخری فیصلہ کن معاملہ ’’کیبنٹ مشن پلان‘‘ کا ہے جس کے بعد اس امر میں کسی شک کا شائبہ بھی باقی نہیں رہ جاتا کہ پاکستان کا قیام مشیت و قدرتِ خداوندی کے خصوصی ظہور کی حیثیت رکھتا ہے. جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ اِس پلان کے مصنفین نے ہندوستان کی تقسیم کو نامناسب ہی نہیں، بلکہ 
ناممکن العمل قرار دے کر گویا بزعم خویش آزاد و خود مختار پاکستان کے مطالبہ کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی تھی، اور اُس کے بجائے ہندوستان کی ایک ’’مرکزی حکومت‘‘ کے تحت تین خطوں (Zones) پر مشتمل وفاق کا نقشہ پیش کیا تھا.

ہندوستان کے ماضی قریب کی تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ یہ قائداعظم مرحوم کی سیاسی زندگی کا نازک ترین مرحلہ اور اُن کے تدبر و تحمل اور دُور اندیشی و معاملہ فہمی کا سخت ترین امتحان تھا!____ انہیں ایک طرف صاف نظر آ رہا تھا کہ برطانوی حکومت مختلف داخلی و خارجی عوامل کے تحت ہندوستان سے بوریا بستر لپیٹنے پر تلی ہوئی ہے اور اگر اِس مرحلے پر مسلم لیگ کی جانب سے ذرا بھی ضد اور ہٹ کا مظاہرہ ہوا تو لیبر پارٹی کی ’’ہزمیجسٹیز گورنمنٹ‘‘ ہندوستان کی حکومت یک طرفہ طور پر کانگریس کے حوالے کر دے گی اور پھر ہندوؤں کے چنگل سی رہائی پانا شاید لاکھوں نہیں کروڑوں جانوں کی قربانی سے ہی ممکن ہوسکے. دوسری طرف یہ بات بھی واضح تھی کہ اِس منصوبہ کو تسلیم کرنے کے معنی یہ تھے کہ مسلم لیگ نے ہارمان لی اور کم از کم وقتی طور پر آزاد اور خود مختار پاکستان کے مطالبے سے دستبرداری اختیار کر لی اور گذشتہ چند برسوں کے دوران جو نفسیاتی اور جذباتی فضا ہندوستان کی مسلم قوم میں پیدا ہو چکی تھی، اُس کے پیش نظر شدید اندیشہ تھا کہ اِس کے نتیجے میں یا مسلمان مشتعل ہو کر قابو سے باہر ہو جائیں گے یا اُن کے حوصلے اور ولولے ہمیشہ کے لیے سرد ہو جائیں گے یا کم از کم مسلم لیگ اور خود قائداعظم کی سیاسی موت واقع ہو جائے گی. گویا قائداعظم اور مسلم لیگ دونوں کو اُس وقت ایک جانب کنواں اور دوسری جانب کھائی والی صورت ِ حال سے سابقہ تھا. البتہ کیبنٹ مشن پلان میں دو باتیں ’’ڈوبتے کو تنکے کا سہارا‘‘ کا مصداق بھی تھیں____ ایک یہ کہ اُس میں تین خطوں 
(Zones) کی صورت میں پاکستان کے نقشے کی دُھندلی سی تصویر موجود تھی اور دوسرے یہ کہ دس سال کے بعد ہر خطے کے لیے مرکزی حکومت کے ساتھ اپنے تعلق پر نظر ثانی کرنے کی گنجائش موجود تھی!____ اِس طرح اُس وقت نہیں تو دس سال بعد آزاد پاکستان کے قیام کا امکان کم از کم نظری طور پر موجود تھا. اگرچہ یہ بات اظہر من الشمس تھی کہ ایک بار مرکزی حکومت کے قیام کے بعد اِس کا بالفعل امکان بہت کم تھا____ میرے نزدیک یہ قائداعظم کے سیاسی تدبر (Statesmanship) اور واقعیت پسندی (Realism) کا شاہکار تھا کہ اُنہوں نے ۶/جون ۴۶ء کو کیبنٹ مشن پلان کو منظور کر لیا____ اگرچہ اِس پر نہ صرف یہ کہ ہندو پریس نے خوب بغلیں بجائیں، تمسخر اڑایا، کارٹون شائع کیے اور اِسے ’’پاکستان‘‘ کے تصور کی آخری اور حتمی تدفین قرار دیا. بلکہ خود برطانوی حکومت نے بھی اِسے مسلم لیگ کی کمزوری پر محمول کیا. یہی وجہ ہے کہ کیبنٹ مشن پلان کے تحت بننے والی مرکزی حکومت کی تشکیل کے ضمن میں اپنے ایک صریح وعدے کی خلاف ورزی کی اور واضح اعلان سے انحراف میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی.

اِس موقع پر مشیت ایزدی اور قدرتِ خداوندی کا خصوصی ظہور اُس حدیث نبویؐ کے مطابق جس کا حوالہ پہلے آ چکا ہے ’’کہ تمام انسانوں کے دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے مابین ہیں، وہ انہیں جدھر چاہے پھیر دیتا ہے.‘‘ پنڈت نہرو کے اُن بیانات کی صورت میں ہوا جو اُنہوں نے فتح کے نشے میں بدمست ہو کر دیئے. جن کے نتیجے میں کانگریس کی جانب سے پلان کی منظوری کی بالفعل نفی ہو گئی اور ہندو ذہنیت پوری طرح بے نقاب ہی نہیں بلکہ عریاں ہو کر سامنے آ گئی 
(۱____ اِس نوع کی ایک حرکت پلان کے سامنے آتے ہی فوری طور پر خود مسٹر گاندھی سے بھی سرزد ہو گئی تھی، لیکن ایک تو وہ کانگریس کے عہدیدار نہ تھے، دوسرے انہوں نے مشن کی جانب سے اُن کی غلط توجیہات کی تردید کے بعد مصلحتاً زبان کو بند رکھا____ جب کہ پنڈت نہرو کا معاملہ دوسرا تھا، ایک تو وہ اُس وقت کانگریس کے صدر تھے، دوسرے اُن کے ’’ہٹ کے پکے‘‘ ہونے کا وصف مشہور و معروف تھا، لہٰذا اُن کے بیانات کے نتیجے میں مسلم لیگ کے لیے کیبنٹ مشن پلان کی منظوری واپس لینے کا معقول جواز پیدا ہو گیا اور اگرچہ کانگریس کی ورکنگ کمیٹی نے پیچ درپیچ ریزولیوشن کے ذریعے پنڈت نہرو کے بیانات کی تلافی کی کوشش کی لیکن اب تیر کمان سے نکل چکا تھا اور قائداعظم ایسی عقابی نگاہ رکھنے والی شخصیت اس موقع کو ہاتھ سے جانے دینے والی نہیں تھی. چنانچہ ۲۷/ جولائی ۴۶ء کو مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے کیبنٹ مشن پلان کی منظوری واپس لینے کا اعلان کر دیا اور اس طرح ایک آزاد اور خود مختار پاکستان (۱) پنڈت نہرو کے الفاظ کچھ اس طرح تھے کہ ’’ایک دفعہ مرکزی حکومت کے قیام کے بعد پھر کون علیحدہ ہونے دے گا!‘‘ (روایت بالمعنی). کے قیام کا مسئلہ جو نظری طور پر کم از کم دس سال کے لیے اور حقیقتاً ہمیشہ کے لیے دفن ہو گیا تھا، از سر نو زندہ ہو گیا____ !!

اب ذرا بتایئے کہ اِس ’’اعجازِ مسیحائی‘‘ کا سہرا بظاہر احوال اور اِس عالم اسباب و علل کی حد تک سوائے پنڈت نہرو کے اور کس کے سر باندھا جا سکتا ہے؟____ یہی وجہ ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی کتاب (انڈیا ونز فریڈم) میں اپنے پورے سیاسی کیرئیر کی صرف ایک ہی غلطی تسلیم کی ہے اور وہ یہ ہے کہ انہوں نے ۴۶ء میں کانگریس کا صدر بننا قبول نہ کیا____ اوراِس طرح اُس وقت پنڈت نہرو کی صدارت کی صورت پیدا ہوئی، اور اُن کی اس عہدے دارانہ حیثیت ہی کی بناء پر اُن کے ’’فرمودات‘‘ کو وہ اہمیت حاصل ہوئی کہ کانگریس کے نقطۂ نگاہ سے مسلم لیگ کے دام میں آجانے کے بعدبچ نکلنے کی صورت پیدا ہوئی____ ویسے غور کیا جائے تو پنڈت جی نے اپنی سادہ لوحی کی بناء پر یا فتح کی ’’مستی‘‘ میں جو کچھ کہا تھا وہ بالکل درست تھا اور واقعتا صورت یہی تھی کہ اگر ایک بار اُس پلان کے تحت انڈین یونین گورنمنٹ وجود میں آ جاتی تو پھر کسی خطے 
(Zone) کے علیحدہ ہونے کا بالفعل کوئی امکان نہ رہتا____ لیکن اُس وقت اِس ’’سچی بات‘‘ کا زبان سے نکال دینا ہی اکھنڈ بھارت کے نقطۂ نظر سے سب سے بڑی سیاسی غلطی تھی.غالباً یہی وجہ ہے کہ اُن کی صاحبزادی مسز اندرا گاندھی نے اپنے پتا جی کے بارے میں کہا تھا کہ ’’ہمارے بابا تو صوفی تھے انہیں سیاست نہیں آتی تھی‘‘!____ اور شاید پنڈت جی کی ایسی ہی باتیں تھیں جن کی بناء پر چوہدری خلیق الزماں مرحوم نے کہا تھا کہ ’’پنڈت نہرو سے زیادہ سیاست تو میرا سائیس جانتا ہے‘‘ (مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی کتاب کے صفحات ۱۴۳ تا ۱۴۵) پنڈت جی کی ۱۹۳۷ء کی ایک ایسی ہی کوہ ہمالیہ جتنی بڑی غلطی کا ذکر کیا ہے جس کا براہِ راست تعلق چوہدری صاحب کی ذات سے تھا، جس کی بناء پر مولانا آزاد کے نزدیک یوپی میں مسلم لیگ کی تحریک کو عروج حاصل ہوا.

ہمارے نزدیک یہ اللہ تعالیٰ کے خصوصی تصرف کا مظہر تھا اور اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے گویا مسلمانانِ ہند پر یہ حجت قائم فرمائی تھی کہ تم تو ایک کلیتہً آزاد و خود مختار پاکستان کے مطالبے سے دستبردار ہو گئے تھے، ہم نے اپنی خصوصی مشیت و قدرت کو بروئے کار لا کر 
تمہیں ایک کاملتہً آزادو خود مختار پاکستان عطا فرمایا____ ’’تاکہ دیکھیں کہ اب تم کیا کرتے ہو.‘‘ 
لِنَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ 
(سورۂ یونس آیت : ۱۴

چنانچہ یہ روایت مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے معتقدین کے حلقے میں تواتر کے ساتھ بیان ہوتی ہے کہ مولانا نے ۴۶ء کے رمضان المبارک میں سلہٹ میں، جہاں وہ عموماً ماہِ رمضان گذارا کرتے تھے فرما دیا تھا کہ ’’ملاءِ اعلیٰ میں پاکستان کے قیام کا فیصلہ ہو گیا ہے.‘‘ اور اس پر جب اُن کے کسی عقیدت مند نے سوال کیا کہ ’’پھر ہم کیا کر رہے ہیں؟‘‘ تو مولانا نے جواب دیا کہ ’’اس معاملے کا تعلق امور تکوینیہ سے ہے جن کی پابندی ہمارے لیے ضروری نہیں.‘‘ 
اوکما قال ، واللہ اعلم!!