قائداعظم مرحوم کی غیر معمولی شخصیت

قیام پاکستان کے ضمن میں مشیت و قدرتِ خداوندی کا دوسرا نمایاں ظہور قائداعظم مرحوم کی قیادت کی صورت میں ہوا تھا، اور اُس کے بعد سے اب تک یہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی نصرت و حفاظت ہی کے ذریعے قائم ہے. 

قائداعظم کی قیادت

۱۸۵ ۷ ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد برصغیر کے حالات میں جو تبدیلی پیدا ہوئی تھی اُس کے لازمی و منطقی نتیجے کے طور پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی تھی کہ اب کم از کم مستقبل قریب میں انگریز کی غلامی سے نجات کا حصول کسی عسکری جدوجہد کے ذریعے ممکن نہیں ہے. اور اِس کے لیے نہ کوئی داخلی بغاوت مفید ہو سکتی ہے نہ خارجی مداخلت، بلکہ آزادی کی کوئی جدوجہد اگر ممکن ہے تو صرف قانونی اور آئینی ذرائع سے. ان حالات میں مسلمانوں کو ایک ایسے قائد کی ضرورت تھی جو انگریزوں کی اجتماعی نفسیات سے بھی کماحقہ، واقف ہو اور اُن سے اُن کی زبان اور محاورے میں گفتگو کر سکے، برطانوی پارلیمانی سیاست کے پیچ و خم اور اسرار و رموز سے بھی پوری طرح آگاہ ہو اور آئینی و قانونی جنگ لڑنے کی صلاحیت و مہارت سے تو بدرجۂ اتم مسلح ہو____ 

مسلمانانِ ہند کے قائد وقت کے لیے دوسرا لازمی وصف یہ درکار تھا کہ وہ ہندوئوں کی ذہنیت کو اچھی طرح جانتا ہو اور اُن کے احساسات و جذبات اور مقاصد و عزائم کا علم اُسے بالواسطہ نہیں بلاواسطہ ذاتی تجربہ کی بنا پر حاصل ہوا ہو، نیز وہ اُن کے مخصوص ’’طریقہ ہائے واردات‘‘ سے بھی پوری طرح واقف ہو اور اُن کے رموز و اشارات کو بھی خوب سمجھتا ہو.

ان دونوں اوصاف کے مطلوبہ حد تک حصول اور ان دونوں ’’گھروں‘‘ کے ’’بھیدی‘‘ ہونے کے لیے لازمی تھا کہ وہ کافی مدت تک ؏ ’’کہ میں اِس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل ؑ!‘‘
کے انداز میں ان دونوں کے ’’اندر‘‘ رہا ہو اور اُس کی ذہنی و فکری اُٹھان اور سیاسی و عملی تربیت بلا تشبیہہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح، جن کی پرورش فرعون کے محل میں ہوئی تھی، ان دونوں ’’دشمنوں‘‘ کے گھروں میں ہوئی ہو!____ 

کون نہیں جانتا کہ اِن دونوں شرائط پر بتمام و کمال پورا اُترنے والا شخص محمد علی جناح کے سوا کوئی نہیں تھا، جس نے انگلستان میں قانون کی تعلیم حاصل کی اور وہاں قیام کے دوران انگریزوں کی نفسیات کا بھی گہرا مطالعہ و مشاہدہ کیا اور پارلیمانی طور طریقوں کو بھی خوب سمجھا اور اِس طرح گویا انگریزوں سے اُن ہی کے ہتھیاروں کے ساتھ جنگ کرنے کی صلاحیت بدرجۂ اتم حاصل کی. پھر تیس برس کی عمر (۱۹۰۶ء) سے جو انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ کام کرنا شروع کیا تو یہ تعلق پورے چودہ سال تو بھرپور انداز میں جاری رہا (قائداعظم نے کانگریس سے علیحدگی ۱۹۲۰ء کے ناگپور سیشن کے دوران اختیار کی تھی!) اِس کے بعد بھی لگ بھگ آٹھ برس وہ ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کی حیثیت سے کام کرتے رہے اور اصلاً اسی عرصہ کے دوران اُن پر ہندو ذہنیت کا انکشاف ہوا.

ظاہر بین لوگوں کے لیے یہ جملہ اُمور محض اتفاقیہ ہو سکتے ہیں، لیکن ؏ ’’جانتا ہے جس پہ روشں باطن ایام ہے!‘‘

کے مصداق جن لوگوں پر باطن ایام بھی روشن ہوتا ہے اور جو جانتے ہیں کہ اِس کائنات میں کوئی واقعہ بھی خالص ’’اتفاقی‘‘ طور پر ظہور میں نہیں آتا، انہیں ان ’’اتفاقات‘‘ میں بلاشبہ حکمت و قدرت خداوندی کا ظہور نظر آئے گا. 


بے پناہ مقبولیت

مزید انشراحِ صدر کے لیے ذرا ان اضافی دلائل کو بھی ذہن کے سامنے لے آیئے کہ اُس وقت تک مسلمانوں کی قیادت دو ہی طبقات کے ہاتھوں میں رہتی تھی____ ایک نوابوں، جاگیرداروں اور وڈیروں کا طبقہ اور دوسرا علمائِ کرام کا طبقہ. قائداعظم کا تعلق ان دونوں میں سے کسی سی نہ تھا. چنانچہ ایک طرف انہوں نے ایک ایسے تجارت پیشہ خاندان میں آنکھ کھولی تھی، جو طبقہ متوسط ہی نہیں اِس کے بھی زیریں حصے سے تعلق رکھتا تھا. لہٰذا دنیوی اعتبار سے وہ جو کچھ بھی تھے بالکلیہ ’’خود ساختہ‘‘ (Slef Made) تھے. دوسری طرف اُن کے والدین کا مذہب ’’امامیہ اسماعیلیہ تھا‘‘ اور اگرچہ وہ خود اوائل ہی میں ان فرقہ وارانہ تقسیموں سے بلند ہو گئے تھے اور اپنے آپ کو صرف مسلمان کہلوانا پسند فرماتے تھے، لیکن جیسا کہ اس سے قبل عرض کیا جا چکا ہے کہ نہ وہ واقعتا ’’مذہبی‘‘ آدمی تھے نہ انہوں نے کبھی تکلفاً یا تصنعاً اپنے آپ کو اِس رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی. بلکہ حال ہی میں ایک واقعہ یہ بھی پڑھنے میں آیا ہے کہ ایک ملاقات کے دوران جب گاندھی جی نے ذرا دل لگی کے انداز(Light Vein) میں اُن سے کہا کہ ’’آپ مسلمانوں میں اِس لیے مقبول ہو رہے ہیں کہ آپ مذہب کا نام لیتے ہیں‘‘____ توقائداعظم نے ان کی تردید میں بطورِ دلیل اپنا طرزِ عمل پیش کیا کہ ’’دیکھ لیجئے! یہ رمضان کا مہینہ ہے اور میں آپ کے سامنے سگریٹ پی رہا ہوں‘‘____ تیسری طرف اِس پر غور کیجئے کہ انہیں اردو بس واجبی ہی سی آتی تھی اور وہ اس میں تحریر و تقریر پر قادر نہ تھے، جب کہ کسی عوامی رہنما کے لیے عوام کی زبان میں اظہارِ خیال پر کماحقہ، قدرت نہایت اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے. 

اس سب کے باوجود وہ اگر برصغیر پاک وہند کی دس کروڑ افراد پر مشتمل قوم کی اکثریت کے محبوب ترین رہنما بن گئے تو کیا یہ ’’خارقِ عادت‘‘ واقعہ نہیں ہے؟ اور کیا اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہے کہ یہ سب کچھ ’’من جانب اللہ‘‘ تھا اور اس لیے تھا کہ اُن کے ذریعے اللہ کو اپنی ایک خصوصی مشیت کی تکمیل کرنی تھی؟‘‘ 

غیر معمولی شخصیت

قائداعظم کی صلاحیتوں کے وقت کے تقاضوں کے عین مطابق ہونے کے علاوہ ان کی شخصیت کا ایک او رپہلو بھی ’’معجزہ نما‘‘ تھا اور یہ کہ سیرت و کردار اور شخصی اوصاف کے اعتبار سے وہ اپنے زمانہ اور ماحول میں بالکل ہی نادر المثال اور عجوبۂ روز گار شخصیت کے مالک تھے اور’’ علماء و مشائخ سے قطع نظر‘‘ جملہ ہمعصر سیاست دانوں میں کوئی ایک شخص بھی اُن کا ہمسر و ہم پلہ تو دُور کی بات ہے، آس پاس بھی نظر نہیں آتا. چنانچہ اُن کے بدترین دشمنوں نے بھی انہیں ضدی اور ہٹ کا پکا (Stubborn & Obstinate) ، انتہائی سرد اور جذبات سے عاری خالص حسابی انسان (Cold & Calculating) یہاں تک کہ مغرور اورخود پسند (Proud & Haughty) تو کہا ____ لیکن کسی نے نہ کبھی اُن کی صداقت اور راست گوئی پر حرف رکھا، نہ دیانت اور امانت پر اور نہ کسی وعدہ خلافی کا الزام لگایا نہ فریب دہی کا، بلکہ سب ان کی صاف گوئی اور راست معاملگی (Straight Dealing) کا برملا اعتراف کرتے رہے اور یہ بات ہمیشہ مسلم سمجھی جاتی رہی کہ جو کچھ اُن کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے وہی اُن کی مراد ہوتی ہے اور نہ کبھی وہ عام سیاست دانوں کے مانند ؏ 

’’کجامی نمائی کجا می زنی!‘‘
کا معاملہ کرتے ہیں نہ جھوٹ، دھوکہ، فریب اور وعدہ خلافی سے کام لیتے ہیں، نہ اُن کے یہاں دروغِ مصلحت آمیز کا وجود ہے، نہ مصنوعی تواضع و مدارات کا اور نہ ریا کارانہ انکساری موجود ہے نہ چاپلوسانہ خوشامد!

قائداعظم کی اسی غیر معمولی شخصیت اور موجود الوقت ظروف و احوال کے اعتبار سے بالکل اجنبی اور انوکھی سیرت کا نتیجہ ہے کہ آزادی ہند اور تقسیم برصغیر کے جملہ مؤرخین و مصنفین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ عالم اسباب میں قیام پاکستان کا واحد سبب صرف ایک انسان ہے____ اور وہ ہے محمد علی جناح! یہاں تک کہ ’’فریڈم ایٹ مڈ نائٹ‘‘ 
(Freedom At Midnight) ____ کے مصنفوں نے تو، اِس کے باوجود کہ قائداعظم سے اُن کا بُغض و عناد کتاب کے بہت سے مقامات پر بالکل عریاں طور پر نظر آتا ہے، واضح طور پر حسرت بھرے انداز میں لکھا ہے کہ اگر وہ راز جو بمبئی کے ڈاکٹر پٹیل کی دراز میں مقفل تھا کسی طرح فاش ہو جاتا تو برصغیر کی تاریخ بالکل مختلف ہوتی اور ہندوستان ہرگز تقسیم نہ ہوتا. اِس لیے کہ وہ راز دراصل قائداعظم کا وہ ایکس رے تھا، جس سے اُن کے پھیپھڑوں کا ٹی بی سے متاثر ہونا ظاہر ہوا تھا____ اِن مصنفوں کی رائے میں اگر اُس وقت اِس کا علم حکومت برطانیہ یا کانگریس کی لیڈر شپ کو ہو جاتا تو وہ آزادیٔ ہند کو مؤخر کر دیتے اور قائداعظم کے انتقال کا انتظار کر لیتے، اِس لیے کہ ہر شخص جانتا تھا کہ مسلمانانِ ہند کے پاس کوئی دوسرا ’’قائد‘‘ ایسا موجود نہ تھا جسے نہ دھوکہ یا فریب دیا جا سکتا ہو، نہ مرعوب و متأثر کیا جا سکتا ہو اور نہ ہی خریدا جا سکتا ہو.

’’اب اگر یہ بات درست ہے اور عربی مقولہ 
اَلْفَضْلُ مَا شَھَدَتْ بِہٖ الْاَعْدَائُ کے مطابق اِسے تسلیم کرنے کے سوا چارہ نہیں تو ظاہر ہے کہ موجود الوقت معیارات اور ظروف و احوال کی نسبت سے اتنی غیر معمولی اور اپنے ہم عصرلوگوں سے اِس درجہ مختلف شخصیت اللہ تعالیٰ کے کسی ارادۂ خصوصی ہی کا مظہر ہو سکتی ہے.‘‘