اسلام کے عالمی غلبے کے ضمن میں قرآنِ حکیم کا ’’صغریٰ‘‘ اور ’’کبریٰ‘‘ یہ ہے:
۱) قرآنِ حکیم میں مندرجہ ذیل الفاظ تین مقامات پر بغیر ایک شوشے کے فرق کے وارد ہوئے ہیں: 

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ۙ 

’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسول (محمدؐ ) کو الہدیٰ (قرآن حکیم) اور دین حق (اسلام) کے ساتھ تاکہ غالب کر دے اُسے کل کے کل دین (یا تمام ادیان) پر.‘‘ 

(سورۂ توبہ، آیت: ۳۳، سورۂ فتح آیت: ۲۸ سورۂ صف آیت:۹


گویا خواہ یہ کہہ لیا جائے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد غلبۂ اسلام ہے، خواہ یوں کہہ لیا جائے کہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے اِس اٹل فیصلے کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے کہ آپؐ کے ذریعے دین حق یعنی اسلام کی صرف تبلیغ و دعوت ہی نہیں ہو گی، بلکہ اسلام کو بالفعل غلبہ و استیلاء حاصل ہو کر کر رہے گا. بہرصورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اسلام کا بالفعل غلبہ قرآنِ حکیم کی نص قطعی سے صراحتہً ثابت ہے.

۲) دوسری طرف قرآنِ مجید نے ؏ ’’اِک پھول کا مضموں ہو تو سورنگ سے باندھوں!‘‘
کے مصداق مختلف اسالیب سے اِس حقیقت کو مبرہن اور واشگاف کر دیا ہے کہ نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کسی خاص قوم یا علاقے کی طرف نہیں بلکہ عالمی اور آفاقی ہے اورپوری نسل انسانی آپؐ کی اُمت دعوت میں شامل ہے. چنانچہ کہیں اِس حقیقت کو اِس طور سے بیان فرمایا کہ: 

وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِلْعَالَمِیْنَ 

’’ہم نے نہیں بھیجا ہے آپؐ کو مگر تمام جہانوں (یا تمام جہان والوں) کے لیے رحمت بنا کر.‘‘ 
(سورۂ انبیائ، آیت: ۷

(واضح رہے کہ 
’’عَالِمِیْنَ‘‘ کاترجمہ ’’تمام جہانوں‘‘ کے علاوہ عربی گرامر کے اس اُصول کے مطابق کہ کبھی ظرف کی جمع سے مراد مظروف کی جمع ہوتی ہے’’تمام جہانوں والے‘‘ بھی ممکن ہے). کہیں یہ بات اس انداز میں بیان ہوئی کہ آپ ؐ اگرچہ خود ’’امیّیّن‘‘ یعنی بنی اسماعیل ؑ میں سے ہیں، لیکن آپؐ کی بعثت صرف اُن کی جانب ہی نہیں بلکہ اُن کے ساتھ ساتھ ’’اٰخرِین‘‘ یعنی دوسروں کی طرف بھی ہے. 

ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۙ﴿۲﴾وَّ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۳﴾ 

’’وہی ہے جس نے اٹھایا اَن پڑھوں میں ایک رسول اُنہی میں کا، پڑھ کر سناتا ہے اُن کو اُس کی آیتیں اور اُن کو سنوارتا ہے اور سکھاتا ہے اُں کو کتاب اور عقلمندی، اور اِس سے پہلے وہ پڑے ہوئے تھے صریح بھول میں اور اُٹھایا اُس رسول کو ایک دوسرے لوگوں کے واسطے بھی اُنہی میں سے جو ابھی نہیں ملے اُن میں. اور وہیہے زبردست حکمت والا .‘‘ 
(سورۂ جمعہ، آیات: ۲/۳

اور کہیں بالکل صاف اور صریح الفاظ میں کہہ دیا گیا کہ: 

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا 

’’ہم نے نہیں بھیجا آپؐ کو مگر تمام انسانوں کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر.‘‘ 
(سورۂ سبا، آیت: ۲۸
قرآنِ حکیم کے اِس صغریٰ و کبریٰ کا لازمی اور منطقی نتیجہ یہ ہے کہ اسلام کا غلبہ پورے عالم انسانی اور کل کرہ ارضی پر ہو کر رہے گا اور یہ وہ تقدیر مبرم ہے جو کسی صورت ٹل نہیں سکتی، بقول اقبال: ؎

تقدیر تو مبرم نظر آتی ہے و لیکن پیرانِ کلیسا کی دعا ہے کہ یہ ٹل جائے!

البتہ چونکہ قرآنِ حکیم کے اِس اٹل فیصلے تک رسائی حاصل کرنے کے لیے انسان کو کسی قدر منطق اور استدلال سے کام لینا پڑتا ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کے اُس مستقل فرمان کے مطابق جس کا اُوپر ذکر ہو چکا ہے اِس کی صریح اور واضح الفاظ میں خبر دی ہے جناب صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے.