علامہ اقبال نے ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں ابلیس کی زبانی ایک عظیم حقیقت کی نشاندہی فرمائی ہے____یعنی ؎
جانتا ہے جس پہ روشن باطن ایام ہے مزدکیت فتنۂ فردا نہیں، اسلام ہے!
اس لیے کہ ہر وہ شخص جو ’’آفاق میں گم‘‘ ہو جانے کی کیفیت میں مبتلا نہ ہو اور ذاتی مسائل و معاملات سے قدرے بلند تر سطح پر تاریخ انسانی کے بہائو کے رُخ کا مشاہدہ کر سکتا ہو بادنیٰ تامل دیکھ سکتا ہے کہ و اقعتہً تاریخ کا رُخ اسلام کے عالمی غلبے ہی کی جانب ہے اور قافلۂ انسانی اسی سمت مین رواں دواں ہے اس لیے کہ ایک طرف طبیعاتی علوم (Physical Sciences) ہیں، جو درجہ بدرجہ کثرت سے وحدت، گویا شرک سے توحید کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں، دوسری طرف عمرانیات (Social Sciences) ہیں جن کی تحقیق و جستجو چاروناچار اُسی رُخ پر آگے بڑھ رہی ہے کہ ابلیس کو اندیشہ لاحق ہو گیا ہے کہ: ؎
عصر حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں!
گویا قافلۂ انسانیت کشاں کشاں ’’بمصطفیٰ برساں خویش را‘‘ پر عمل پیرا ہے، اور اجتماعیات انسانیہ کے ضمن میں واقعہ یہ ہے کہ:
ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو زاں کہ از خاکش بروید آرزو
یا زنورِ مصطفی اُور ابہا ست یا ہنور اندر تلاش مصطفی ست
تیسری طرف اُمت مسلمہ دوبار عروج اور دوبار زوال سے دو چار ہونے کے بعد اب ایک تیسرے عروج کی جانب پرواز کے لیے پر تول رہی ہے، جس کے اندیشے ابلیسی تہذیب کے جملہ مراکز میں شدت کے ساتھ محسوس ہو رہے ہیں. چنانچہ ’’اسلامی بنیاد پرستی‘‘ (Islamic Fundamentalism) کو گولیاں دی جا رہی ہیں تو کہیں ’’جارحیت پسندانہ اسلام کی پیش قدمی‘‘ (Militant Islam on the March ) کی دہائی دی جا رہی ہے. اور اِس سلسلے میں ایک حدیث نبوی ؐ کی روشنی میں چند آیات ِ قرآنیہ پر تدبر نہایت مفید ہو گا ،جس سے اِن شاء اللہ نہ صرف اِس حقیقت پر یقین و اعتماد میں اضافہ ہو گاکہ ؎
کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا!
بلکہ اضافی طور پر علم و حکمت قرآنی کا ایک اور گراں بہا موتی ہاتھ آئے گا اور غلبۂ اسلام اور اُمّتِ مسلمہ کی نشاۃِ ثانیہ کے لیے عملی اقدام کی جانب اہم رہنمائی ملے گی.