گذشتہ چودہ سو سال اور اُمت مسلمہ کے بھی دو عروج اور دو زوال

متذکرہ بالا حدیث نبویؐ ، آیاتِ قرآنیہ اور تاریخ بنی اسرائیل کی روشنی میں جب ہم اُمت مسلمہ کی چودہ سو سالہ تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو فرمانِ رسولؐ کی معجزانہ صداقت کا ایک عجیب نقش دل پر قائم ہوتا ہے کہ اِس کے دَوران میں بھی ہو بہو وہی دوبار عروج اور دو مرتبہ زوال کا نقشہ سامنے آتا ہے. چنانچہ:

۱ ) اُمت مسلمہ کا پہلا دورِ عروج ’’امیین‘‘ کی زیر سرکردگی لگ بھگ تین ہی صدیوں پر پھیلا ہوا تھا. اس لیے کہ اگرچہ ویسے تو دورِ خلافت راشدہ، دورِ بنی اُمیہ اور دور بنی عباس کی مجموعی مدت سوا چھ سو سال بنتی ہے، لیکن اِس میں سے اصل دبدبہ، مرکزیت اور خالص عربی شوکت و سطوت کا دَور تین سو سال ہی کو محیط ہے.

۲ ) اُس کے بعد کے چار سو سال زوال کے دورِ اوّل پر مشتمل ہیں. عجیب حیرتناک مشابہت ہے کہ اِس کے ’’نقطہ عروج‘‘ پر بھی بالکل وہی صورت نظر آتی ہے کہ اوّلاً شمال سے صلیبیوں کا سیلاب آیا، جس نے شام کے ساحلی علاقوں کو تاخت و تاراج کیا اور ۱۰۹۹ ء میں یروشلم کو فتح کر کے مسجد اقصیٰ کی حرمت بھی پامال کی اور لاکھوں مسلمانوں کو بھی تہہ تیغ کیا. اور پھر مشرق سے تاتاریوں کا سیلاب آیا جس کے دوران نہ صرف یہ کہ لاکھوں نہیں کروڑوں مسلمان قتل ہوئے، بلکہ ۱۲۵۸ء میں بغداد کی تباہی کے ساتھ خلافت عباسیہ کا چراغ بھی ہمیشہ کے لیے گل ہو گیا.

۳) اِس کے بعد پھر ایک دَورِ عروج آیا، لیکن ’’امیین‘‘ یعنی عربوں کی زیر قیادت نہیں بلکہ ’’آخرین‘‘ یعنی غیر عرب اقوام میں سے ایک نہایت قوی اور توانا قوم کی زیر قیادت جسے، اللہ نے سورۂ محمدؐ کی آخری آیت میں وارد شدہ الفاظ یعنی (ترجمہ) ’‘اگر تم پیٹھ دکھا دو گے تو اللہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا.‘‘ کے مطابق پسند فرمایا. چنانچہ اللہ نے پہلے اُنہیں مسلمانوں کی پیٹھ پر عذاب کے کوڑے کے طور پر استعمال فرمایا اور بعد ازاں اُنہی کو نہ صرف یہ کہ اسلام کی توفیق دے دی بلکہ عالم اسلام کی قیادت 
بھی اُنہی کے حوالے کر دی____ بقول اقبال: ؎

ہے عیاں فتنۂ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے!

چنانچہ اوّلاً تُرکانِ سلجوقی میدان میں آئے، پھر ترکانِ صفوی، ترکانِ تیموری اور تُرکانِ عثمانی جن کے ہاتھوں عظیم سلطنتوں کی بنیاد پڑی____ اور تُرکانِ عثمانی کی سعادت کا تو کہنا ہی کیا کہ نہ صرف یہ کہ پورے جنوبی ایشیا، شمالی افریقہ اور مشرقی یورپ پر اُن کی شوکت و سطوت کا سکہ جما، بلکہ خلافت اِسلامی کا علم بھی کئی صدیوں تک اُن کے ہاتھوں میں رہا.
۴) ٹھیک اُسی طرح جس طرح بنی اسرائیل کا دوسرا دور ِ زوال دو یورپی قوموں یونانیوں اور رُومیوں کے ہاتھوں آیا تھا، اُمت مسلمہ کا دوسرا دورِ زوال بھی یورپی استعمار کے سیلاب کے نتیجے میں ظاہر ہوا. چنانچہ ہسپانیہ کی یونیورسٹیوں کے ذریعے علم و حکمت اور فلسفہ وسائنس کی قوتوں سے مسلح ہو کر یورپی اقوام جب بیدار ہوئیں تو ایک عربی محاورے 
سَمِّنْ کَلبَک یَاْکُلُکَ یعنی اپنے کتے کوکھلا پلا کر موٹا کرو گے تو ایک دن تم ہی کو کاٹے گا! کے مطابق انہوں نے اوّلاً دولت ہسپانیہ ہی کو ہڑپ کیا اور پھر ۱۴۹۸ء میں راس اُمید کے راستے کی دریافت کے بعد مغربی استعمار کا سیلاب اِس طویل بحری راستے کے ذریعے عالم اسلام کے دائیں بازو پر حملہ آور ہوا____ اور یہ عمل موجودہ صدی کے آغاز میں پہلی جنگ عظیم کے موقع پر تکمیل کو پہنچا، جب عظیم سلطنت عثمانیہ کا نام و نشان مٹ گیا اور صرف ایک چھوٹا سا ملک ترکی باقی رہ گیا، خلافت اسلامیہ کا چراغ گل ہو گیا____ اورپورا عالم اسلام یورپی اقوام کی براہِ راست یا بالواسطہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑا گیا____ عجیب حیرت انگیز مماثلت ہے کہ امت مسلمہ کے اِس دوسرے دورِ زوال کے تتمے کے طور پر ۱۹۶۷ء میں مسلمانوں کے عہد تولیت کے دوران بھی دوسری بار مسجد اقصیٰ کی حرمت پامال ہوئی اور گزشتہ اٹھارہ برس سے مسلمانوں کا یہ قبلہ اوّل ایک مغضوب و معلون قوم کے قبضہ وتسلط میں ہے. جس طرح ایک انسانی زندگی کے مختلف ادوار کا معاملہ ہے کہ جوانی کی قوت و شدت کی بنیادیں بچپن اور لڑکپن ہی میں پڑنی شروع ہو جاتی ہیں اور بڑھاپے کے ضعف اور ناتوانی کی جڑیں عین جوانی کے عروج کے وقت جسم انسانی میں جمنی شروع ہو جاتی ہیں. بالکل اسی طرح قوموں اور اُمتوں کا معاملہ ہے کہ اُن کے بھی عین عروج کے وقت زوال کے عمل کا آغاز ہو چکا ہوتا ہے اور زوال کی انتہا کے ساتھ ہی عروج کی جانب حرکت شروع ہو جاتی ہے. چنانچہ اب سے لگ بھگ پون صدی قبل جب ملت اسلامیہ ہندیہ کا ایک درد مند فرزند الطاف حسین حالیؔ اُمت مسلمہ کی پستی کی انتہا پر نالہ کناں تھا: ؎

پستی کا کوئی حد سے گذرنا دیکھے! اِسلام کا گر کر نہ اُبھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جذر کے بعد دریا کا ہمارے جو اُترنا دیکھے

اور ؎

اے خاصۂ خاصانِ رسل وقت دعا ہے امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
وہ دیں جو بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے!

عین اُسی وقت ایک دوسرا مرد قلندر ملت اسلامی اور اُمت مسلمہ کے عروجِ تازہ کے خواب دیکھ رہا تھا اور پورے یقین و اعتماد کے ساتھ پیش گوئی کر رہا تھا کہ : ؎

سرشک چشم مسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا
خلیل اللہؐ کے دریا میں ہوں گے پھر گہر پیدا
کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
اگر عثمانیوں پہ کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ اب سے لگ بھگ نصف صدی قبل تاریخ انسانی اُمت مسلمہ کے ایک تیسرے دورِ عروج کی جانب سفر کا آغاز کر چکی ہے، جس کے نتیجے میں اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کا وہ عمل جو الف ثانی کے تجدیدی کارنامے سے شروع ہوا تھا ان شاء اللہ اسلام کے غلبے پر منتج ہو گا. اور اِس کے ضمن میں دو امور تو بالکل قطعی اور حتمی ہیں، یعنی ایک یہ کہ سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ۹ کی رُو سے اِس کا فیصلہ کن ذریعہ قرانِ حکیم کی جانب از سر نو رجوع و التفات کے سوا اور کوئی نہیں، اور دوسرے یہ کہ گذشتہ چار صدیوں کے دوران جملہ تجدیدی مساعی کا اصل مرکز و معہد برصغیر پاک و ہند رہا ہے. البتہ یہ بات صرف گمان غالب کے درجے میں ہے کہ اب اِس سلسلے کے تکمیلی اقدام کے لیے مشیت ایزدی نے ارض پاک کو چن لیا ہے، لیکن یہ بات چونکہ تفصیل طلب ہے لہٰذا اس پر ہمیں مفصل گفتگو کرنا ہو گی.