بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ 

وَ مَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ٭ وَ مَا نَہٰىکُمۡ عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا ۚ 
’’اور جو کچھ رسولؐ تم لوگوں کو دے دیں وہ لے لو اور جس چیز سے روک دیں اس سے رک جاؤ!‘‘ 

سۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ 

نبی اکرم کا ارشادِ گرامی ہے: تَرَکْتُ فِیْکُمْ اَمَرَیْنِ، لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا : کِتَابَ اللّٰہِ وَسُنَّۃَ نَبِیِّہٖ [رواہ المالک مرسلاً ] ’’(مسلمانو!) میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں‘ جب تک تم ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے ہرگز گمراہ نہ ہوگے. وہ ہیں: اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت‘‘ چنانچہ دین اسلام اور شریعت اسلامی کی یہی دو بنیادیں ہیں‘ ایک اللہ کی کتاب قرآن حکیم اور دوسری سنت ِ رسولؐ . کتاب اللہ وحی ٔجلی اور وحی باللفظ ہے‘ جبکہ سنت وحی ٔخفی پر مبنی ہے. یعنی اس کا مفہوم اللہ ہی کی طرف سے آیا ہے لیکن الفاظ اللہ کے رسول کے ہیں. گویا سنت وحی باللفظ نہیں بلکہ وحی بالمعنی ٰ ہے. سنت رسول کا علم ہمیں دو ذرائع سے حاصل ہوتا ہے‘ جن میں سے پہلا تواتر اُمت اور دوسرا حدیث ہے‘ جو سنت ِ رسولؐ کا تحریری ریکارڈ ہے.

قرآنِ حکیم نوعِ انسانی کے لیے اللہ تعالیٰ کا آخری اور تکمیلی پیغامِ ہدایت ہے‘ جونبی آخر الزماں حضرت محمد رسول اللہ پر نازل ہوا. آنحضور کا فرضِ منصبی نہ صرف اس کتاب ہدایت کو نوعِ انسانی تک پہنچا دینا تھا 
یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ (المائدۃ:۶۷بلکہ اس کی توضیح و تبیین بھی تھا. ازروئے الفاظِ قرآنی: وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۴۴﴾ (النحل) ’’اور (اے نبی !) ہم نے آپ کی جانب یہ ’’الذکر‘‘ (قرآن) نازل کیا ہے تاکہ آپ واضح کر دیں لوگوں کے لیے جو کچھ نازل کیا گیا ہے ان کی جانب اور تاکہ وہ غور و فکر سے کام لیں.‘‘ چنانچہ آنحضور نے اپنے اقوال و افعال کے ذریعے قرآن حکیم کی تشریح و توضیح فرمادی‘ جو ذخیرئہ حدیث کی صورت میں اُمت کی راہنمائی کے لیے محفوظ ہے.

یہ ذخیرئہ حدیث صحاحِ ستہ‘ موطا امام مالک‘ مسند احمد اور دیگر امہات الکتب پر محیط ہے اور ہر دور میں اہل علم نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق ان میں سے انتخاب کر کے احادیث کے خوبصورت گلدستے تیار کیے ہیں. بعض روایاتِ حدیث کی بنیاد پر (جن کا ذکر محترم ڈاکٹر 
صاحبؒ کے تمہیدی خطاب میں قدرے تفصیل سے موجود ہے)چالیس احادیث کو جمع کر نے کاعمل علماء و محدثین کے ہاں باعث ِسعادت رہا ہے‘ چنانچہ متعدد اہل علم نے چالیس احادیث پر مشتمل مجموعے (اربعینیات) مرتب کیے ہیں. ’’اربعین نوویؒ ‘‘ ایک ایسا ہی عطر بیز گلدستہ ٔ حدیث ہے جو ساتویں صدی ہجری کے بلند پایہ زاہد و عابد اور محدث و فقیہہ امام یحییٰ بن شرف الدین النووی رحمہ اللہ علیہ (۶۳۱.۶۷۶ھ) نے مرتب فرمایا. امام نوویؒ کئی کتابوں کے مصنف ہیں‘ جن میں ریاض الصالحین اور شرح صحیح مسلم بہت معروف ہیں. ۴۲ احادیث پر مشتمل ان کے مختصر مجموعہ ٔ احادیث (اربعین) کو جو قبولِ عام اور شہرتِ دوام حاصل ہوئی وہ ان سے پہلے یاان کے بعد کسی مرتب کے حصے میں نہ آئی. امام نوویؒ نے اپنی ’’اربعین‘‘ میں ایسی احادیث کو جمع کیا ہے جو دین میں اساس کی حیثیت رکھتی ہیں اور ان کی جامعیت و ہمہ گیری کا یہ عالم ہے کہ وہ کم و بیش ان تمام مسائل کا احاطہ کرتی ہیں جوہر مسلمان کی زندگی کا لازمی حصہ ہیں.

بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ علیہ نے ۰۸.۲۰۰۷ء کے دوران جامع القرآن قرآن اکیڈمی لاہور میں اپنے خطاباتِ جمعہ میں ’’اربعین نوویؒ ‘‘ کی احادیث کا سلسلہ وار مطالعہ کرایا. ان خطابات کے دوران محترم ڈاکٹر صاحب نے ’’اربعین‘‘ کی ۴۲ احادیث پر مستزاد ’’حکمت دین کا ایک عظیم خزانہ‘‘ کے عنوان سے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث کا مطالعہ بھی دو نشستوں میں کرایا. قرآن اکیڈمی کے شعبہ ٔمطبوعات کے زیر اہتمام ترتیب و تسوید کے بعد ان خطاباتِ جمعہ کی ماہنامہ ’’میثاق‘‘ میں اشاعت کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے اور اس سلسلے کی تکمیل کے بعد ان کو یکجا کرکے ضخیم کتاب کی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے.ان خطاباتِ جمعہ کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ محترم ڈاکٹر صاحبؒ زیر مطالعہ حدیث کے مضامین کی مناسبت سے ہر خطاب کے آغاز میں قرآن حکیم کی آیات بھی تلاوت کرتے رہے اور ہر حدیث کی تشریح و توضیح میں ذخیرئہ احادیث سے دیگر متعلقہ احادیث بھی بیان کرتے رہے.

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس خدمت کو شرفِ قبول عطافرما کر اسے داعی قرآن ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے لیے صدقہ ٔجاریہ اور بلندیٔ درجات کا ذریعہ بنائے اور اس کی ترتیب و تدوین اور اشاعت و طباعت کی خدمات سرانجام دینے والوں کے لیے اسے سعادتِ دارین کا باعث بنائے!

۵شعبان المعظم ۱۴۳۷ھ/۱۳ مئی ۲۰۱۶ء
بروز جمعۃ المبارک
خالد محمود خضر 
مدیر شعبہ مطبوعات