سب جانتے ہیں کہ ہمارے دین اسلام اور شریعت اسلامی کی دو بنیادیں ہیں‘ ایک کتاب اللہ یعنی قرآن حکیم اور دوسری سنت رسولؐ . جیسا کہ ہمارے کلمہ ٔ طیبہ کے دو حصے ہیں: لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ اور مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ یعنی توحید اور رسالت .کلمہ ٔ شہادت جو ہمارے اسلام کی جڑ اور بنیاد ہے اس کے بھی دو حصے ہیں : اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَـہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُـہٗ. کتاب اللہ اور سنت رسول اللہؐ میں فرق یہ ہے کہ کتاب اللہ وحی جلی ہے ‘ وحی باللفظ (verbal evelation) ہے‘ وحی بالمعنی نہیں ہے .عیسائیوں کے ہاں وحی کے بارے میں یہ تصور ہے کہ وحی باللفظ (verbal) نہیں ہوتی‘ بلکہ صرف ایک مفہوم منتقل کر دیا جاتا ہے ‘ اس مفہوم کو پھر رسول اپنی زبان میں اداکرتا ہے. گویا الفاظ اللہ کے نہیں ہوتے. ہمارا تصور اس کے برعکس ہے. ہمارے نزدیک وحی جلی ’’وحی باللفظ‘‘ ہے‘ جو لفظ بلفظ اللہ کا کلام ہے. دوم یہ کہ وہ بالکل محفوظ ہے. اس کا ایک حرف تو کجا کسی ایک شوشے میں بھی کوئی تحریف نہیں ہوئی. 

اس کے مقابلے میں سنت کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بھی وحی ہے‘ مگر وہ وحی خفی پر مبنی ہے. اس کا بھی اشارہ اللہ کی طرف سے ہے‘ لیکن یہ وحی باللفظ نہیں ہے‘ وحی بالمعنیٰ ہے. یعنی مفہوم اللہ کی طرف سے آیا ہے‘ لیکن الفاظ اللہ کے رسولؐ کے ہیں. دوسری بات یہ کہ اس کی حفاظت قرآن کی طرح کی حفاظت نہیں ہے. اس معنی میں تو حفاظت ہے کہ تاریخ انسانی میں صرف ایک مثال ہے کہ کسی ایک شخصیت کے اقوال اور اعمال کی صداقت اور صحت کو پرکھنے کے لیے لاکھوں انسانوں کی سیرت وکردار کا جائزہ لیا گیا. احادیث کی جانچ پرکھ کے لیے مسلمانوں نے اسماء الرجال کا جو علم ایجاد کیا ‘پوری انسانی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی. اس اعتبار سے سنت ِرسولؐ کی واقعتاًحفاظت کی گئی ہے. البتہ یہ حفاظت بالواسطہ ہوئی ہے ‘اس معنی میں حفاظت نہیں کہ ہرشے لفظ بلفظ محفوظ ہے ‘بلکہ ایسا بھی ہے کہ رسول اللہ سے ایک مجمع میں کچھ لوگوں نے باتیں سنیں‘ پھر انہوں نے جو روایت کی تو بہت بڑا فرق پیدا ہو گیا. آج بھی آپ دیکھیں گے کہ میری کوئی بات آپ جا کر لوگوں کو بتائیں گے تو ہر شخص کے بتانے میں کچھ فرق پیدا ہو جائے گا. اس کی ایک بڑی مثال 
’’اُمُّ السُّنّۃ‘‘ یعنی حدیث جبرائیل ؑہے جو ’’اربعین نووی‘‘ میں دوسرے نمبر پر آئے گی. یہ ایک اہم اور مشہور متواتر حدیث ہے ‘لیکن مختلف راویوں نے جب اسے بیان کیا ہے تو لفظی طور پر اس میں اختلاف پیدا ہو گیا. 
یہ بھی جان لیجیے کہ سنت اور حدیث دو علیحدہ علیحدہ الفاظ ہیں.آنحضور کا تعامل اور طرزِ عمل سنت کہلاتا ہے اور حدیث اس کا ایک تحریر شدہ ریکارڈ ہے. سنت کو 
معلوم کرنے کے دو ذرائع ہیں. ایک حدیث اور دوسرا اُمت کا تواتر عمل. آنجناب  کو صحابہ کرام j نے عمل کرتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے آپؐ کی پیروی کی. صحابہ کرام کو عمل کرتے ہوئے تابعین نے دیکھا تو وہ ان کے نقش ِ قدم پر چلے .تو اس طرح بہت سی چیزیں تواتر کے ساتھ اُمت میں منتقل ہو گئیں.یہ تواتر ِ عمل سنت کا علم حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے. 

عام طور پر لوگ سنت اور حدیث کو مترادف سمجھ لیتے ہیں‘ حالانکہ یہ دو مختلف الفاظ ہیں‘ ان کا مفہوم جدا ہے. یہ دونوں الفاظ ‘حدیث اور سنت ‘اللہ کے لیے بھی آئے ہیں اور رسول اللہکے لیے بھی. مثلاً: 
سُنَّۃَ اللّٰہِ الَّتِیۡ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلُ ۚۖ وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا ﴿۲۳﴾ (الفتح) ’’یہ اللہ کا دستور ہے جو پہلے سے چلا آ رہا ہے‘ اور تم اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پائو گے‘‘. سورئہ فاطر میں ارشاد ہوا: فَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا ۬ۚ وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحۡوِیۡلًا ﴿۴۳﴾ ’’پس تم اللہ کے قانون میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پاؤ گے. اور تم اللہ کے قانون کو ہرگز ٹلتاہوا نہیں دیکھو گے‘‘. اسی طرح فرمایا: سُنَّۃَ مَنۡ قَدۡ اَرۡسَلۡنَا قَبۡلَکَ مِنۡ رُّسُلِنَا وَ لَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحۡوِیۡلًا ﴿٪۷۷﴾ (الاسرائ) ’’یہ ہمارا طریقۂ عمل رہا ہے ان انبیاء و رُسلؐ کے بارے میں جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا. اور آپ ہماری سنت میں کوئی تغیر نہیں پائیں گے‘‘. حدیث کے بارے میں سورۃ النساء میں فرمایا: وَ مَنۡ اَصۡدَقُ مِنَ اللّٰہِ حَدِیۡثًا ﴿٪۸۷﴾ ’’اور تم اللہ سے بڑھ کر کسی کو حدیث (بات) میں سچا نہیں پاؤ گے‘‘. اسی طرح فرمایا گیا: فَبِاَیِّ حَدِیۡثٍۭ بَعۡدَہٗ یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿٪۵۰﴾ (المرسلٰت) ’’تم اس (قرآن) کے بعد کس حدیث پر ایمان لاؤ گے؟‘‘ قرآن حکیم میں رسول اللہ کی بات کے لیے بھی حدیث کا لفظ آیا ہے :وَ اِذۡ اَسَرَّ النَّبِیُّ اِلٰی بَعۡضِ اَزۡوَاجِہٖ حَدِیۡثًا ۚ (التحریم:۳’’ اور (یہ واقعہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے) جب نبی کریم نے رازداری سے اپنی ایک بیوی کو ایک بات بتائی ‘‘. ان حوالوں سے پتا چلا کہ سنت کا لفظ بھی سنت اللہ اور سنت الرسول دونوں کے لیے استعمال ہوا ہے اور حدیث کا لفظ بھی حدیث اللہ اور حدیث الرسول دونوں کے لیے آیاہے. اصطلاح میں حدیث کسے کہتے ہیں ؟ حدیث دو طرح کی چیزوں پر مشتمل ہے. ایک ’’اخبار‘‘ہے جو خبر کی جمع ہے اور ایک ’’آثار‘‘ ہے جو اثر کی جمع ہے. خبررسول اللہ کے کسی قول‘ فعل یا تقریر کو کہتے ہیں. قول اور فعل کے بارے میں تو آپ جانتے ہیں لیکن تقریر کے بارے میں یاد رہے کہ اصطلاح میں اس کا مفہوم ہے کہ کوئی کام آنحضور کے سامنے کیا گیا اور آپؐ نے روکا نہیں‘ تو اسے آپؐ کی منظوری کی ایک سند حاصل ہو گئی. لہٰذا آنجنابؐ کے اقوال‘ افعال اور تقریر اخبار کہلاتے ہیں اور کسی صحابی کے اقوال ‘ افعال اور تقریر آثار کہلاتے ہیں. اس لیے کہ گمانِ غالب یہی ہے کہ صحابی جو بات کہہ رہے ہیں وہ اپنی طرف سے نہیں کہہ رہے‘ بلکہ انہوں نے یہ بات رسول اللہ سے سنی ہو گی او رجس پر صحابی عمل کر رہے ہیں انہوں نے اسے رسول اللہ کو کرتے دیکھاہو گا. ان اخبار و آثار کے مجموعہ کا نام حدیث ہے. 

حدیث نبویؐ کے دو حصے ہیں: متن اور سند. متن 
(text) یہ ہے کہ رسول اللہ نے کیا ارشاد فرمایا. جبکہ سند یہ ہے کہ رسول اللہ سے کس نے سنا‘ اُس سے کس نے سنا. یعنی آنجنابؐ سے صحابی‘ صحابی سے تابعی ‘ تابعی سے تبع تابعی ‘یہ روایت کہلاتی ہے‘ اور یہ کڑیاں (links) راوی کہلاتے ہیں. امام بخاریؒ جب کوئی حدیث بیان کرتے ہیں تو اپنی شخصیت سے لے کر نبی کریم تک درمیان کی تمام کڑیاں بیان کرتے ہیں. اس طرح وہ ایک مستند درجے کی حدیث ہوتی ہے. یہ کڑیاں نبی اکرم سے لے کر محدث تک ہونی چاہئیں. ہمارے ہاں علماء کے اندر بھی سند چلتی ہے .جو لوگ دینی علوم سے فارغ التحصیل ہیں‘ ان کی بھی سند ہے. آج دینی مدارس کے جو شیخ الحدیث ہیں انہیں بھی ائمہ ٔحدیث سے لے کر اپنے آپ تک پورا سلسلۂ سند معلوم ہوتا ہے. ان تصریحات سے اندازہ کریں کہ حدیث کی خاطر کتنی محنت ہوئی ہے اور کس قدر کوشش کی گئی ہے. 

حدیث کی سند میں جن راویوں کے نام آتے ہیں ان کے حالات کی جانچ پرکھ کی جاتی ہے. دیکھنا پڑتا ہے کہ کہیں کسی راوی پر جھوٹ کا الزام تو نہیں‘ کسی کو سوءِ حفظ کا عارضہ تو لاحق نہیں تھا. ہر راوی کے سیرت و کردار کو جانچا جاتا ہے.راویوں کے بارے 
میں ان معلومات کا علم ’’اسماء الرجال‘‘ کہلاتا ہے اور تاریخِ انسانی میں صرف آنحضور ہی کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ کی حدیث کو جانچنے کے لیے تمام راویوں کے حالات کا بخوبی جائزہ لیا جاتا ہے.

سند کے اعتبار سے حدیث کی چند اقسام یہ ہیں: مسند‘ مرفوع‘ مرسل‘ ضعیف‘ موضوع.مسند: وہ حدیث جس کی ساری کڑیاں آپس میں ملی ہوئی ہوں‘ کہیں کوئی وقفہ نہ ہو‘ یعنی متصل ہو. مرفوع:وہ حدیث جو رسول اللہ سے روایت کی جا رہی ہو. مرسل: وہ حدیث ہے جو ایک تابعی رسول اللہ سے بیان کر رہے ہوں اور یہ نہ بتا رہے ہوں کہ انہوں نے یہ حدیث کس صحابی سے سنی ہے. مرسل کا درجہ وہ نہیں ہے جو مرفوع کا ہے. ضعیف: جس میں کسی ایک راوی کا کردارمعیاری نہ ہو‘ یا اسے سوء حفظ کا عارضہ ہو. اگر روایت کی کسی ایک کڑی میں بھی ان دونوں میں سے کوئی ایک بات ہو تو وہ حدیث ضعیف ہے. موضوع: جس روایت کے بارے میں محدثین کرام نے چھان بین کر کے یہ فیصلہ کر لیا ہو کہ یہ کوئی من گھڑت حدیث ہے‘ اس کی نسبت آنجناب کی جانب درست نہیں ہے‘ اسے موضوع کہتے ہیں. احادیث میں جو موضوع ہیں انہیں بھی جمع کیا گیا ہے. ایسی کتابوں کو ’’کتاب الموضوعات ‘‘کا نام دیا جاتا ہے. 
ضعیف احادیث کے ضمن میں یہ واضح رہے کہ کسی حدیث کے ساتھ ضعیف لکھا ہو تو اس سے ہمیں خیال پیدا ہوتا ہے کہ اس کو چھوڑ دیں ‘ یہ تو ضعیف ہے. حالانکہ سند کی ایک کڑی میں بھی ضعف ہو تو حدیث ضعیف کہلاتی ہے. ضعیف احادیث کے اندر بھی علم و حکمت کے بڑے اعلیٰ موتی ہوتے ہیں.دیکھئے‘ ایک ہے کسی بات کا سچ ہونا‘ جبکہ ایک ہے سچ کا سچ ثابت ہوجانا. کتنے ہی سچ ایسے ہوتے ہیں جن کو ثابت نہیں کیا جا سکتا. آپ نے وکلاء سے سنا ہو گا کہ خالص سچ پر کوئی ایک مقدمہ بھی نہیں جیتا جا سکتا‘ کچھ نہ کچھ جھوٹ اس میں شامل کرنا پڑتا ہے. تو سچ کا ثابت کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے. آپ یہ نہ سمجھیں کہ جو سچ ثابت نہ ہو سکے وہ جھوٹ ہے . چنانچہ ضعیف حدیث کمزور تو ہے ‘لیکن موضوع نہیں ہے‘ وہ متروک نہیں ہو گی کہ اسے چھوڑ دیا جائے. ہاں اس سے کوئی حکم شرعی 
نہیں نکلے گا. اس سے حلت و حرمت کے احکامات اخذ نہیں کیے جائیں گے. اگر ہم ضعیف احادیث سے احکامات اخذ کرنا شروع کر دیں تو پھر شریعت اصل شکل میں باقی نہ رہے گی.ضعیف احادیث فضائل کے ضمن میں قابل قبول ہیں. ہمارے ہاں بہت سے مصنفین اپنی کتب میں ضعیف احادیث کی صورت میں حکمت کے بڑے قیمتی موتی لائے ہیں.