خطباتِ جمعہ کی ان نشستوں میں ہمیں ’’اربعین نووی‘‘ کا مطالعہ کرنا ہے .اس کے آغاز سے قبل ہم چالیس احادیث حفظ کرنے کی فضیلت کے بارے میں رسول اللہ کی ایک حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں.اس کے رواۃ میںحضرات علی‘ عبداللہ بن مسعود‘ معاذ بن جبل‘ عبداللہ بن عمر‘ عبداللہ بن عباس‘ انس بن مالک‘ ابوالدرداء اور ابوسعید الخدری رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں ‘جو سب جلیل القدر اور ثقہ صحابہ ہیں. لیکن کہیں تابعین یا تبع تابعین کی سطح پر کوئی راوی ایسا آ گیا ہے جو قابل اعتماد نہیں‘ جس کا حافظہ متأثر ہے یا جس کا سیرت و کردار مشکوک ہے ‘لہٰذا یہ روایت ضعیف قرار پا گئی. وہ حدیث یہ ہے : مَنْ حَفِظَ عَلٰی اُمَّتِیْ اَرْبَعِیْنَ حَدِیْثًا مِنْ اَمْرِ دِیْنِھَا بَعَثَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِیْ زُمْرَۃِ الْفُقَہَائِ وَالْعُلَمَائِ ’’جس شخص نے میری امت کی حفاظت کی خاطر دین کے معاملے میں چالیس احادیث حفظ کیں‘ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے روز فقہاء اور علماء کے گروہ میں سے اٹھائے گا‘‘. ایک روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں : بَعَثَہُ اللّٰہُ فَقِیْھًا عَالِمًا ’’اللہ تعالیٰ اسے فقیہہ اور عالم کی حیثیت سے اٹھائے گا‘‘. حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے: وَکُنْتُ لَـہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ شَافِعًا وَّشَھِیْدًا ’’اُس شخص کے حق میں قیامت کے دن میں سفارش کرنے والا اور گواہی دینے والا ہوں گا‘‘. حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے : قِیْلَ لَہُ ادْخُلْ مِنْ اَیِّ اَبْوَابِ الْجَنَّۃِ شِئْتَ ’’اس سے کہا جائے گا کہ تم جنت کے جس دروازے سے چاہو داخل ہو جاؤ‘‘.عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکی روایت‘میں ہے : کُتِبَ فِیْ زُمْرَۃِ الْعُلَمَائِ وَحُشِرَ فِیْ زُمْرَۃِ الشُّھَدَائِ ’’اس شخص کا نام‘علماء کی فہرست میں لکھ لیا جائے گا‘ اور وہ قیامت کے روز شہداء کے ساتھ اکٹھاکیا جائے گا‘‘.یہ حدیث اور اس کی مختلف روایات کو امام نوویؒ نے ’’اربعین نووی‘‘ کے مقدمہ میں نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ حفاظِ حدیث کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اگرچہ اس کے طرق بہت زیادہ ہیں. یہ حدیث ’’کنز العمال‘‘ میں بھی ہے. اس مجموعۂ احادیث میں ضعیف اور صحیح دونوں طرح کی احادیث موجود ہیں. 

حدیث کا ترجمہ کرتے ہوئے میں نے حفظ کا لفظ اس لیے برقرار رکھا ہے کہ ہمارے ہاں حفظ کا ایک عجیب تصور پایا جاتا ہے ‘جیسے قرآن کا حافظ ہے لیکن مفہوم نہیں سمجھتا‘ یہ تو نام کا حافظ ہے. صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں جب کوئی حفظ کرتا تو وہ اس کے متن کے ساتھ ساتھ مفہوم کو بھی یاد کرتا ‘بلکہ اس سے آگے بڑھ کر وہ اس پر عمل بھی کرتا. امام سیوطی رحمہ اللہ علیہ کی کتا ب ’’الاتقان فی علوم القرآن‘‘ میں روایت موجود ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے جن حضرات کا خاص شغف قرآن سے تھا ‘جیسے حضرت عثمان بن عفان اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما‘وہ فرماتے ہیں کہ جب ہم نبی اکرم سے دس آیات پڑھ لیتے تو آگے نہ بڑھتے جب تک ہمیں ان کا علم حاصل نہ ہو جاتا اور جب تک ہم اس پر عمل نہ کرلیتے. آپ ملاحظہ فرمائیں کہ تین چیزیں جمع ہو گئیں! الفاظ ان کے حافظے میں محفوظ ہو گئے‘ علم ان کے ذہن میں آ گیا اور عمل ان کی سیرت کا حصہ بن گیا. یہ تین شرائط پوری ہوں گی تو کوئی حافظ کہلانے کا مستحق ہو گا. اب ’’حفظ‘‘ کے لفظ کو مدنظر رکھ کر مذکورہ بالا حدیث کا مطالعہ کریں. حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے کچھ تابعین نے سوال کیاتھا کہ آنجناب کا اخلاق کیا تھا؟ تو اُمّ المؤمنین نے فرمایاتھا: 
کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ أَمَا تَقْرَأُ الْقُرْآنَ قَوْلَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (مسند احمد‘ ح۲۳۴۶۰’’آپؐ ‘ کا اخلاق قرآن کریم تھا. کیا تم قرآن میں اللہ تعالیٰ کا یہ قول نہیں پڑھتے ہو: یقینا آپؐ ‘ خلق عظیم کے حامل ہیں‘‘.واضح رہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا شمار چوٹی کے فقہائے صحابہؓ میں ہوتا ہے. حضراتِ تابعین جب آنحضور کی سیرت و کردار کے بارے میں پوچھ رہے ہوں گے تو انہیں کتنی حسرت ہو گی کہ اگر ہم بھی چند سال پہلے دنیا میں آ جاتے تو آنجناب کی صحبت سے مستفید ہو جاتے. ؎

قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند 
دوچار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا!

قرآن وحی متلو ہے جس کی تلاوت کی جاتی ہے ‘جو الفاظ اور حروف کی شکل میں ہمارے پاس ہے اور آنجناب قرآن مجسم تھے ‘قرآن حکیم ان کے رگ و پے میں سرایت کرگیاتھا. جب آپ قرآن کریم پڑھیں گے تو بہت سی سورتیں سیرت کے ابواب دکھائی دیںگی. سورۃ الانفال میں غزوۂ بدر کا تذکرہ ہے. سورۃ آل عمران کا ایک بہت بڑا حصہ غزوئہ اُحد پر مشتمل ہے. سورۃ التوبۃ کا ایک بڑا حصہ غزوئہ تبوک سے متعلق ہے. لہٰذا قرآن کریم کی جملہ تعلیمات کو مجسم شکل میں دیکھنا ہو تو وہ محمد ٌ رسول اللہ کی شخصیت ہے. یعنی تم قرآن حکیم پڑھو ‘ اسی کے آئینہ میں حضرت محمدکی سیرت نظر آئے گی. 

مَنْ حَفِظَ عَلٰی اُمَّتِیْ… 
جو حدیث بیان ہوئی ہے اس پر علماء کا اتفاق ہے کہ یہ ضعیف ہے ‘لیکن اس سے اشتغال کا معاملہ دیکھیں کہ پچاس سے زائد ائمہ دین اور علماء کرام نے چالیس چالیس احادیث کے مجموعے مرتب کیے. حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہ نے بھی چالیس احادیث کا گلدستہ تیار کیا. 

ہم جو’’الاربعین‘‘ پڑھیں گے‘ اس کے مؤلّف امام نوویؒ ہیں‘ جن کا پورا نام یحییٰ بن شرف الدین النوویؒ ہے. آپ ۶۳۱ھ میں پیدا ہوئے اور ۶۷۶ھ میں فوت ہوگئے. گویا کل ۴۵ برس عمر پائی. اتنے کم عرصے میں حدیث کے سلسلے میں ان کی بڑی خدمات ہیں. انہوںنے صحیح مسلم کی شرح بھی لکھی.’’ریاض الصالحین‘‘ امام نوویؒ ہی کا مرتب کردہ احادیث کا مجموعہ ہے جو نہایت مقبول ہے. اسی طرح تمام ’’أربعین‘‘ جو مرتب ہوئی ہیں‘ ان میں مقبول ترین امام نوویؒ کی أربعین ہے. عربی میں کتاب کا اصل نام 
’’الاربعون النوویۃ‘‘ ہے ‘ لیکن ہمارے ہاں فارسی ترکیب کی وجہ سے ’’اربعین نوویؒ ‘‘ ہے.