اور قرآن و حدیث میں ربط و تعلق


یکم جون ۲۰۰۷ء کا خطابِ جمعہ
خطبہ ٔمسنونہ کے بعد : 

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ3 

لَیۡسَ الۡبِرَّ اَنۡ تُوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ قِبَلَ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ الۡکِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ ۚ 
(البقرۃ:۱۷۷
عَنْ اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ اَبِیْ حَفْصٍ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ص قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ  یَـقُوْلُ: 

اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّـیَّاتِ وَاِنَّمَا لِکُلِّ امْرِیٍٔ مَا نَوٰی ‘ فَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ فَھِجْرَتُہٗ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ‘ وَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ لِدُنْیَا یُصِیْبُھَا اَوِامْرَاَۃٍ یَنْکِحُھَا فَھِجْرَتُہٗ اِلٰی مَا ھَاجَرَ اِلَـیْہِ 
(متفقٌ علیہ) 

آج ہم اللہ کا نام لے کر خطاباتِ جمعہ میں ’’اربعین نوویؒ ‘‘ کے سلسلہ وار مطالعہ کا آغاز کر رہے ہیں. اس سے پہلے میں نے بطور تمہید ’’حدیث کی اہمیت اور اس کا مقام و مرتبہ‘‘ کے موضوع پر خطاب کیا تھا. آج ہم ’’اربعین نوویؒ ‘‘ کی پہلی حدیث کا مطالعہ کریں گے. اس حدیث مبارکہ سے پہلے میں نے خطبہ میں سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۷۷ کا ابتدائی حصہ بھی پڑھا‘ تاکہ واضح ہو جائے کہ قرآن اور حدیث میں کتنا گہرا ربط ہے. یہ دونوں دراصل ایک ہی سکے کے دو رُخ یا بالفاظِ دیگر ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں. 
قرآن مجید میں جو بات بڑے شاہانہ اندازِ خطاب میں آتی ہے احادیث میں وہ بات نہایت شاندار الفاظ میں آتی ہے تاکہ اس کی پوری طرح وضاحت ہو سکے. جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے : 

وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ 
(النحل:۴۴
’’اور ہم نے آپ پر یہ الذکر (قرآن مجید) نازل فرمایا ‘تاکہ آپ لوگوں کے لیے واضح کریں جو اُن کی طرف نازل کیا گیا ہے.‘‘

قرآن کریم اصل میں لوگوں کی ہدایت کے لیے تھا جو آنحضور کے پاس امانت تھا.اس لیے آپؐ کے ذریعے لوگوں کے لیے اس کی وضاحت ضروری تھی.

سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۷۷ کو میں نے 
’’آیۃ البِر‘‘ کا عنوان دیا ہے. معانی اور علم و حکمت کے اعتبار سے یہ قرآن مجید کی عظیم ترین اور طویل ترین آیات میں سے ہے. اس میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ عام طور پر لوگوں کے ذہنوں میں نیکی کا جو تصور ہے وہ عمل کے محض ظاہری پہلو کے اعتبار سے ہے کہ یہ نیکی کا بہت بڑا کام ہے. اس لیے کہ اس نیک عمل کے پیچھے جو محرک ہوتا ہے وہ انہیں معلوم نہیں ہو سکتا‘ یا محض گمان کی حد تک ہوتا ہے‘ جبکہ گمان بھی یقین کی حد تک نہیں پہنچ سکتا. اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارا نیکی کا یہ تصور رفتہ رفتہ صرف ظاہر تک محدود ہو جاتا ہے‘باطن کی طرف توجہ نہیں رہتی .

دراصل ہر عمل کے دو پہلو ہوتے ہیں‘ ایک اس کا ظاہر ہوتا ہے اور دوسرا باطن. یعنی باطن میں عمل کا محرک کیا ہے اور ظاہر میں عمل کی شکل کیا ہے.اگرچہ ظاہر بھی اپنی جگہ اہم ہے‘ اس لیے کہ ع ’’لطافت بے کثافت جلوہ آرا ہو نہیں سکتی‘‘ کے مصداق کسی لطیف شے کو واضح ہونے کے لیے کوئی کثیف شے درکار ہوتی ہے . لیکن اصل شے ‘جس پر زیادہ زور ہونا چاہیے ‘وہ اس کا باطن ہے‘ یعنی اس کی نیت. چنانچہ قرآن مجید میں فرمایا گیا:’’نیکی یہی نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے مشرق اور مغرب کی طرف کر لو‘ بلکہ نیکی حقیقت میں اس کی ہے جو اللہ پر ‘روز ِقیامت پر‘ فرشتوں پر‘ کتاب پر اور سب نبیوں پر ایمان لایا.‘‘

یہ آیت مبارکہ ہمارے مرتب کردہ مطالعہ قرآن حکیم کے منتخب نصاب کا درس نمبر ۲ 
ہے‘ جس پر میں نے متعدد بار مفصل دروس دیے ہیں.اس وقت یہ بات سمجھانی مقصود ہے کہ ایمان سے نیکی کاکیا تعلق ہے. ایمان درحقیقت کسی عمل کے محرک کو معین کرتا ہے. نیکی اللہ کی نگاہ میں صرف وہ عمل ہو گا جو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کیا جائے اور جس کی جزا صرف آخرت میں مطلوب ہو. اگر دنیا میں اس کی جزا مطلوب ہے تو یہ ایک دھندا اور کاروبار ہے‘ نیکی ہرگز نہیں ہے. کاروبار کرنا اپنی جگہ جائز ہے ‘لیکن وہ کاروبار کی شکل میں ہو. یہ چیز نہایت خطرناک اور گمراہ کن ہے کہ نیکی کا لبادہ اوڑھ کر اسے کاروبار کا ذریعہ بنایا جائے. 

مذکورہ بالا آیت میں ایمان باللہ کے بعد دیگر ایمانیات میں ایمان بالرسالت کا ذکر بھی ہے. درحقیقت ہمیں نبوت و رسالت کے ذریعے سے نیکی کا ایک ماڈل ملتا ہے کہ نیکی کے مختلف اعمال کسی شخصیت میں ایک توازن کے ساتھ آئیں. ورنہ بسا اوقات نیکی ہی کا جذبہ حدِّ اعتدال سے تجاوز کر کے بدی کا راستہ کھول دیتا ہے .چنانچہ نیکی ہی کا جذبہ تھا جس نے دنیا میں رہبانیت کی شکل اختیار کی. ارشاد باری تعالیٰ ہے: 

وَ رَہۡبَانِیَّۃَۨ ابۡتَدَعُوۡہَا مَا کَتَبۡنٰہَا عَلَیۡہِمۡ 
(الحدید:۲۷
’’یہ رہبانیت تو خود انہوں نے (حضرت عیسیٰ ؑکے پیروکاروں نے) ایجاد کی‘ہم نے تو یہ ان کے اوپر فرض نہیں کی تھی.‘‘

اور رسول اللہ نے فرمایا: 

لَا رَھْبَانِیَّۃَ فِی الْاِسْلَامِ 
(۱
’’دین اسلام میں رہبانیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے.‘‘

یہ بات ظاہر ہے کہ رہبانیت اختیار کرنے والے یہ کام کرتے تو نیکی کے جذبے سے ہیں ‘ لیکن وہاں نیکی غیر معتدل اور غیر متوازن ہو جاتی ہے. توازن کے ساتھ نیکی کا ایک مکمل مجسمہ محمدٌ رسول اللہ کی ذاتِ مبارک ہے جو ہمارے لیے اُسوۂ حسنہ ہے . لیکن محرکاتِ عمل کا تعلق ایمان باللہ اور ایمان بالآخرۃ سے ہے. نیکی اسی لیے کی جائے کہ اللہ 
(۱) مراسیل ابی داوٗد‘ ح ۲۸۷. وفتح الباری لابن حجر۹/۱۳. وسلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ للالبانی ۴/۳۸۷تعالیٰ راضی ہو جائے‘ اس سے صرف آخرت کی جزا اور اُخروی نجات مقصود ہو. 

اس حقیقت کو نبی اکرم نے اس حدیث کے اندر سادہ انداز میں بیان فرمایا.اس حدیث کے بارے میں یہ بات جان لیں کہ اکثر محدثین کرامؒ نے جومجموعے مرتب کیے ہیں ان میں سب سے پہلے اس حدیث کا ذکر کیاہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ محدثین کرامؒ بھی تو جمع و تدوین حدیث کی صورت میں ایک عمل اور ایک جدوجہد کررہے تھے. آنحضور کی احادیث کی جمع و تدوین بہت بڑی نیکی تھی‘ اس پر جرح و تعدیل کا کام بہت محنت طلب تھا‘جس میں بڑے خطرات تھے کہ کسی ایسے شخص کی روایت قبول نہ کر لی جائے جو جھوٹ بولتا ہو اور جھوٹی احادیث گھڑتا ہو‘ مبادا اُمت میں فتنہ پیدا ہو جائے. یہ ایک بڑی محنت طلب اور مشقت طلب جدوجہد تھی اور اس میں اصل شے ان کے نزدیک نیت کا معاملہ تھا‘ اسی لیے وہ اس حدیث کو پہلے لائے ہیں کہ اللہ کرے اس مجموعے کے مرتب کرنے میں ہماری نیت میں سوائے اللہ کی رضا اور آخرت کی جزا کے اور کوئی شے شامل نہ ہو. 

اب ہم اس حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں. اس حدیث کے راوی امیر المؤمنین ابوحفص عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ہیں. حضرت حفصہ رضی اللہ عنہاحضرت عمر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں‘ چنانچہ ابوحفص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے. حدیث ہے: 
عَنْ اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ اَبِیْ حَفْصٍ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِص قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ  یَـقُوْلُ ’’امیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے خود سنا اللہ کے رسول کو فرماتے ہوئے ‘‘.( اصل میں بعض اوقات روایت شروع ہو جاتی ہے ’’عَنْ فُـلَانٍ‘‘ سے کہ فلاں صاحب سے روایت کیا گیا. اب یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ ان صاحب نے یہ خود آنحضور سے سنا. یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہوں نے کسی صحابی سے سنا ہو‘ وہ خود براہِ راست سامع نہ ہوں. لہٰذا جب ’’عَنْ‘‘ سے بات شروع ہو تو کافی نہ ہو گی. یہاں فرمایا گیا: قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ  یَقُوْلُ ’’فرماتے ہیں :میں نے خود رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا‘‘) . اب آگے حدیث کا متن ہے: اِنَّمَا اَلْاَعْمَالُ بِالنِّـیَّاتِ ’’بے شک اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے‘‘.یہاں عام آدمی سمجھے گا کہ ’’عمل ‘‘ کا لفظ عام ہے اور نیکی اور بدی دونوں کے لیے مستعمل ہے. لیکن یہ مغالطہ ہے. عربی زبان میں جو دو الفاظ’’ عمل‘‘ اور’’ فعل‘‘ اور ان کی جمع ’’اعمال‘‘ اور’’ افعال‘‘ ہیں‘ ان کے استعمال میں فرق ہے. اس ضمن میں قرآن و حدیث سے جو وضاحت ہوتی ہے وہ یہ کہ’’ عمل‘‘ کہتے ہیں اس کام کو جس میں مشقت ہوتی ہو ‘جو محنت طلب ہو‘ جس کے بعد انسان تکان محسوس کرے. اسی لیے قرآن مجید میں آیا ہے : عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ ۙ﴿۳﴾تَصۡلٰی نَارًا حَامِیَۃً ۙ﴿۴﴾ (الغاشیۃ) ’’بعض چہروں پر قیامت کے دن تکان طاری ہوگی ‘وہ لوگ ہوں گے تپتی ہوئی آگ کے اندر ‘‘.یہاں حدیث مبارکہ میں گفتگو نیکی کے بارے میں ہو رہی ہے‘ برائی کے کام کی بات نہیں ہو رہی کہ آپ کر تو معصیت کا کام رہے ہیں لیکن نیت آپ کی نیک ہے. قرآن و حدیث کے بعض مقامات اس حقیقت کو ثابت کرتے ہیں. لہٰذا یہاں اعمال کا اطلاق معصیت اور گناہ کے کاموں پر نہیں ہوگا‘ بلکہ نیک اور بھلے کاموں پر ہو گا.

آگے فرمایا: 
وَاِنَّمَا لِکُلِّ امْرِیٍٔ مَا نَوٰی ’’اور ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہو گی‘‘. عمل کا ظاہر کچھ بھی ہو‘ لیکن اللہ کی نگاہ میں اصل شے اس کام کے پیچھے انسان کی نیت ہے. عرفِ عام میں اسے یوں سمجھئے کہ جب الیکشن کا دَور آنے والا ہو تو اب وہ چودھری اورسرمایہ دارجو اپنے محل میں ٹکا رہتا ہے‘ اب گلیوں میں نکلتا ہے‘ غریبوں سے بغل گیر ہوتا ہے‘ میلے کچیلے بچوں کو گود میں اٹھاتا اورانہیں پیار کرتا ہے. اب اس کا فیصلہ سب دیکھنے والے کر لیتے ہیں کہ وہ کس لیے ایسا کر رہا ہے. یہ کوئی حقیقی شفقت و محبت نہیں ہے‘ جو کہ نیکی کے کام ہیں‘ بلکہ یہ تو ووٹ لینے کا ایک دھندہ ہے. یہ تو ایسی حرکات ہیں جو ہمیں نظر آ رہی ہیں اور جن کے بارے میں ہم خود فیصلہ کرسکتے ہیں‘ لیکن بعض چیزیں ہمارے مشاہدے سے بالکل مخفی ہوتی ہیں. اس کے لیے انسان کے اندر خود احتسابی ہونی چاہیے کہ میں کیا کر رہا ہوں ‘ کس لیے کر رہا ہوں‘ کہیں میری نیت میں کوئی فساد توپیدا نہیں ہو گیا‘ کہیں مجھ پر شیطان تو حملہ آور نہیں ہو گیا. لہٰذا جو نیت ہو گی وہی ملے گا ‘ صرف عمل کے ظاہری پہلو سے جزا نہیں ملے گی. کسی نے بڑی فاؤنڈیشن بنا دی ہواور اس سے لوگوں کو بہت خیر پہنچ رہا ہو‘ لیکن آپ کو کیا معلوم کہ اس کے پیچھے اس کی نیت کیا ہے .آیا سرکار دربار میں رسائی حاصل کرنا اور انکم ٹیکس میں ہیرا پھیری اس کا مقصد ہے یا اللہ کی رضا پیش نظر ہے‘ یہ صرف اللہ جانتا ہے . دنیا میں ہم کہیں گے کہ نیکی کا کام ہے‘ بڑا اچھا کام ہے ‘لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں اس شخص کا سارا معاملہ نیت کے حوالے سے طے ہو گا. 

اب اس کے لیے آنحضور نے ایک مثال دی: 
فَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ فَھِجْرَتُہٗ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ’’پس جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہو ئی‘ تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسولؐ ہی کے حساب میں شمارہوگی‘‘.

ہجرت یہ تھی کہ اہل ایمان کو حکم ہو گیا تھا کہ مکہ مکرمہ کو چھوڑو اور مدینہ منورہ پہنچو. اہل و عیال کو چھوڑنا پڑے تو مکہ مکرمہ کے بھیڑیوں کے رحم و کرم پر چھوڑو. اسی طرح جو اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے قبائل میں مسلمان تھے انہیں بھی حکم تھا کہ اپنے قبیلوں کو چھوڑو اور مدینہ منورہ چلے آؤ. تمام اہل ایمان کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کر جانے کے حکم کی وجہ میں نے اپنی کتاب ’’منہج انقلاب ِ نبویؐ ‘‘ میں پورے دلائل کے ساتھ بیان کی ہے کہ اب رسول اللہ کی جدوجہد میں وہ دَور آرہا تھا جس میں کفر کے ساتھ براہِ راست تصادم ہونا تھا‘ لہٰذا ضرورت تھی کہ پوری قوت ایک مرکز پر جمع ہو جائے ‘کیونکہ اگر قوت منتشر ہے ‘کچھ لوگ یہاں ہیں کچھ وہاں ہیں تو کوئی مؤثر اقدام نہیں کیا جا سکتا‘ لہٰذا یہ ہجرت فرض تھی . اس سے پہلے حبشہ کی طرف دو ہجرتیں ہوئیں تھیں جو کہ رضاکارانہ تھیں‘ ان میں صرف اجازت دی گئی تھی کہ اگر یہاں کی سختیاں نہیں جھیلی جا رہی ہیں اور صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے تو حبشہ میں جا کر پناہ گزیں ہوجائو.اس لیے کہ وہاں ایک عادل‘ نیک اور اچھا بادشاہ ہے. لیکن مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرض تھی ‘کیونکہ یہ رسول اللہ کی انقلابی جدوجہد کے اندر ایک اہم قدم کی حیثیت رکھتی تھی. 
اب دیکھیں ہجرت کا ظاہر تو یہ ہے کہ کوئی شخص مکہ مکرمہ چھوڑ کر مدینہ منورہ آ گیا ہے‘ اسے ہم مہاجر ہی کہیں گے‘ لیکن اس کی ہجرت کا اصل سبب کیا ہے؟اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان ‘ اُن کی محبت اور ان کے حکم کی پیروی ہے یا کوئی اور مقصد ہے؟ یہ اللہ جانتا ہے. اس سلسلے میں رسول اللہ نے دو مثالیں بیان فرمائی ہیں: فَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ لِدُنْیَا یُصِیْبُھَا ’’اور جس کی ہجرت ہوئی دنیا کے حصول کے لیے تاکہ دنیا حاصل کرے‘‘اَوِامْرَأَۃٍ یَنْکِحُھَا ’’یا کسی عورت سے نکاح کی خاطر ہجرت کی‘‘ فَھِجْرَتُہٗ اِلٰی مَا ھَاجَرَ اِلَـیْہِ ’’تو اس کی ہجرت اسی چیز کے لیے شمار ہو گی جس کے لیے اس نے ہجرت کی‘‘. اس بات کو سادہ سی مثال سے سمجھیں کہ مکہ مکرمہ میں کوئی مسلمان دکانداری کر رہا تھا یا کوئی اور کام کر رہا تھا‘ جیسے حضرت خباب رضی اللہ عنہ لوہار تھے‘ تو اس کے ایمان لانے کے بعد کفار تو اُس سے کوئی کام نہیں کرواتے ہوں گے‘ کیونکہ اہل ایمان اور کفار کے مابین کشیدگی پیدا ہو چکی تھی اور صرف اہل ایمان ہی اس سے کام کرواتے ہوں گے‘ اور اب وہ تو مدینہ منورہ چلے گئے. تو ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اپنے گاہکوں کی خاطر مدینہ منورہ ہجرت کر گیا ہو. یہ باریک بات ہے جو صرف اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے ‘کوئی دوسرا شخص کسی پر کوئی حکم نہیں لگا سکتا. اللہ تعالیٰ تو اپنے علم کامل کے حساب سے اپنے رسول کو بتا رہا ہے اور آپ ہمیں بتا رہے ہیں . یا فرض کریں کوئی صاحب کسی خاتون سے نکاح کے خواہش مند تھے ‘وہ خاتون ہجرت کر کے مدینہ منورہ چلی گئیںتو اب یہ بھی کچے دھاگے سے بندھے وہاں پہنچ گئے. اب یہ بھی ہجرت تو کر رہے ہیں‘ لیکن ان کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے شمار نہیں ہوگی‘ بلکہ اس خاتون کے عشق اور محبت کے زمرے میں آئے گی. کہتے ہیں کہ ایک صاحب کو ’’مہاجر اُمّ قیس‘‘ کہا جاتا تھا‘ یعنی انہوں نے اُمّ قیس کے لیے ہجرت کی تھی. 

بہرحال اللہ کے ہاں کسی بھی عمل کا دار و مدار نیت پر ہو گا اور دنیا میں ہم نیتوں کے بارے میں فیصلہ نہیں کر سکتے. کسی کی نیت پر شک کرنااور حملہ کرنا جائز نہیں ہے. ہمیں کیا معلوم کہ دلوں کا حال کیا ہے. دلوں کا حال تو صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے. وہ 
’’عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ‘‘ ہے. حدیث نبویؐ ہے: 

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ اِلٰی صُوَرِکُمْ وَاَمْوَالِکُمْ وَلٰـکِنْ یَنْظُرُ اِلٰی قُلُوْبِکُمْ وَاَعْمَالِکُمْ 
(۱
’’بے شک اللہ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا‘ بلکہ وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے.‘‘

اگر عمل صحیح اور نیک ہے اور دل میں اس کے لیے جو محرک اور جذبہ ہے وہ بھی صحیح ہے تو ایسا عمل اللہ کے ہاں مقبول ہوگا. اب اسی حوالے سے چند احادیث دیکھیں کہ یہ بات رسول اللہنے کس انتہا تک پہنچائی ہے. آپ نے فرمایا: 

مَنْ صَلّٰی یُرَائِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ ‘ وَمَنْ صَامَ یُرَائِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ‘ وَمَنْ تَصَدَّقَ یُرَائِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ 
(۲
’’جس نے دکھاوے کے لیے نماز پڑھی اس نے شرک کیا‘ اور جس نے دکھاوے کے لیے روزہ رکھا اس نے شرک کیا‘اور جس نے ریاکاری کے لیے صدقہ و خیرات کیا اس نے بھی شرک کیا‘‘.

اب دیکھیں نماز اگرچہ نیکی کا بہت بڑا کام اور ارکانِ اسلام میں سے رکن اعظم ہے‘ ایسے ہی روزہ اسلام کا عظیم رکن ہے اور صدقہ وخیرات بہت عظیم کارِ خیر ہیں‘ لیکن اس کے باوجود اگر یہ کام رضائے الٰہی کے بجائے ریاکاری‘ اپنی دین داری کا رعب گانٹھنے یا کسی اور مقصد کے لیے ہیں تو شرک کے زمرے میں آئیں گے اور شرک سے بڑا اور گھناؤنا گناہ اور کوئی نہیں ہے. سورۃ النساء میں دو مقامات پر فرمایا گیا: 
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۚ (آیات ۴۸ و ۱۱۶’’بے شک اللہ تعالیٰ اسے ہرگز نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیاجائے‘ ہاں اس سے کم تر گناہ جس کو چاہے گا معاف فرما دے گا‘‘.

شرک دو طرح کا ہے. ایک شرکِ جلی ہے اور دوسرا شرکِ خفی. شرکِ جلی وہ ہے جو 
(۱) صحیح مسلم‘ کتاب البر والصلۃ والآداب‘ باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ…
(۲) مسند احمد‘ ح ۱۶۵۱۷
نظر آ رہا ہو کہ شرک ہو رہا ہے .مثلاً بُت یا کسی قبر کو سجدہ کیا جا رہا ہے‘ جبکہ شرکِ خفی دل میں ہوتا ہے . مثلاً آپ نماز میں سجدہ کر رہے ہوں اور آپ کو یہ محسوس ہو کہ کوئی آپ کو دیکھ رہا ہے تو آپ سجدہ ذرا لمباکر دیں تو یہ شرکِ خفی ہے. اس کا تجزیہ آپ آسانی سے کرسکتے ہیں ‘مثلاً آپ پہلے پانچ سیکنڈ کا سجدہ کر رہے تھے اور اب دس سیکنڈ کا سجدہ کیا ہے تو یہ اضافی پانچ سیکنڈ کس کے لیے لگے ہیں؟ پانچ سیکنڈ تواللہ کے لیے ہو گئے لیکن دوسرے پانچ کس کے لیے؟ گویا ایک سجدے کے دو مسجود ہو گئے . ایک مسجود اللہ کی ذات ہوئی اور ایک مسجود وہ لوگ ہوئے جنہیں دکھایا جا رہا ہے .

اس سلسلے میں رسول اللہ کی دعوت اور تربیت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں جس حد تک باریک بینی آ گئی تھی اس کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایک واقعہ سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے. ایک موقع پر عین حالت ِجنگ میں حضرت علی رضی اللہ عنہکا ایک شخص سے دوبدو مقابلہ ہوا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کافر کو زیر کر لیا اور اس کے سینے پر سوار ہوگئے. اب اسے خنجر گھونپنے ہی والے تھے کہ اس نے نیچے پڑے ہوئے بھی آپؓ کے منہ پر تھوک دیا.( جیسے انگریزی میں کہا جاتا ہے : 
To add insult to injury) حضرت علیؓ نے اس کی اس حرکت کے بعد اسے چھوڑ دیا اور فوراً اس کے سینے سے نیچے اتر آئے. وہ بہت حیران ہوا کہ انہوں نے مجھے کیوں چھوڑ دیاہے جبکہ میں نے ان کی توہین بھی کی ہے! اس کے استفسار پر حضرت علیؓ فرمانے لگے :دیکھو! میری تم سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے‘میں تمہیں صرف اللہ کے لیے قتل کر رہا تھا‘ لیکن اب اگر میں تمہیں قتل کرتا جبکہ تم نے میری توہین کی ہے‘ تو میری نیت میں میرے نفس کا انتقام بھی شامل ہوجاتا. ذرا غور کیجیے کہ جنگ کا معاملہ ہو‘جوجذبات کی انتہائی گرمی کا وقت ہوتا ہے‘ مرو یا مارو کی کیفیت ہوتی ہے‘ اس حالت میں بھی انسان کی نگاہ دل اور نیت پر ہو‘ یہ رسول اللہ کی تربیت کا ہی کمال تھا. 

یہ مضمون قرآن مجید میں بڑی حسین تمثیلوں کے پیرائے میں تین جگہ آیا ہے. ایک مقام سورۃ النور کا پانچواں رکوع ہے جو قرآن مجید کے بڑے اہم مقامات میں سے ہے 
جس میں حکمت کے بڑے بڑے موتی ہیں.یہاں تین قسم کے لوگوں کا ذکر ہے. پہلے مؤمن صادق کی مثال بیان ہوئی ہے اور اس کے ایمان کی جھلک بھی دکھائی گئی ہے کہ اُس کا باطن نورِ ایمان سے منور ہوتا ہے اور ظاہر اعمالِ صالحہ سے مزین ہوتا ہے. مؤمن کے دل میں جو نورِ ایمان ہوتا ہے یہ دو نوروں کے امتزاج سے بنتا ہے‘ ایک نورِ فطرت اور دوسرا نورِ وحی . چنانچہ فرمایا گیا: نُوۡرٌ عَلٰی نُوۡرٍ ؕ (النور:۳۵’’یہ روشنی پر روشنی ہے‘‘. (اَللّٰھُمَّ رَبَّـنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ’’اے اللہ !ہمیں ان میں شامل فرما!‘‘)پھر ایک دوسری مثال‘ جو ہمارے موضوع سے متعلق ہے ‘ ایسے شخص کی دی گئی جس میں ایمان تو نہیں ہے لیکن ظاہری طو رپر کچھ نیک اعمال ہیں ‘ مثلاً غریبوں‘ مسکینوں کو کھانا کھلانا. ایسے شخص کو قیامت کے دن ‘بعث بعد الموت کے وقت یاد آئے گا کہ میں نے توبہت نیکیاں کی تھیں‘ ان کا کچھ تو اجر مجھے ملنا چاہیے. ایسے شخص کی تمثیل یوں بیان کی گئی: وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَعۡمَالُہُمۡ کَسَرَابٍۭ بِقِیۡعَۃٍ یَّحۡسَبُہُ الظَّمۡاٰنُ مَآءً ؕ ’’اور جن لوگوں نے کفر کیا (جنہوں نے اللہ اور آخرت کو نہیں مانا) ان کے اعمال( ان کی نیکیاں) سراب کی مانند ہیں جسے پیاسا پانی سمجھتا ہے‘‘. جیسے کہ صحرا میں دور سے پانی نظر آتا ہے‘ حالانکہ پانی نہیں ہوتا. اب پیاسا آدمی دوڑتا ہوااُس کی طرف جا رہا ہے یہاں تک کہ تھک جاتا ہے ‘ اب بھاگا نہیں جاتا تو گھسٹتا ہوا جا رہا ہے. حَتّٰۤی اِذَا جَآءَہٗ لَمۡ یَجِدۡہُ شَیۡئًا (النور:۳۹’’یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچتا ہے تو اسے کچھ نہیں پاتا‘‘. وَّ وَجَدَ اللّٰہَ عِنۡدَہٗ فَوَفّٰىہُ حِسَابَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ ﴿ۙ۳۹﴾ (النور) ’’اوروہ وہاں اللہ کو پائے گا جو اسے اس کا حساب پورا پورا عطا کرے گا.اور اللہ کو حساب لیتے دیر نہیں لگتی‘‘. تمہارے اعمال میں نیت غلط تھی ‘لہٰذا تمہاری نیکیاں سراب کی مانند ہیں. انسان اپنے آپ کو سہارا دیتا ہے کہ وہ بڑے نیک اعمال کر رہا ہے‘ لیکن اگر اس میں خلوصِ نیت نہیں ہے‘ یعنی اللہ کی رضا اورآخرت کی جزا پیش نظر نہیں ہے تو وہ کوئی نیکی نہیں ہے.

تیسری قسم کے وہ لوگ ہیں کہ جن کے دل میں تاریکی ہی تاریکی ہے اور عمل میں 
کوئی جھوٹ موٹ کی نیکی کی روشنی بھی نہیں ‘ یہ خالص نفس پرست اور خالص مفاد پرست لوگ ہیں. ان کے متعلق کہا گیا ہے : اَوۡ کَظُلُمٰتٍ فِیۡ بَحۡرٍ لُّجِّیٍّ یَّغۡشٰہُ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِہٖ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِہٖ سَحَابٌ ؕ ظُلُمٰتٌۢ بَعۡضُہَا فَوۡقَ بَعۡضٍ ؕ (آیت ۴۰’’یا پھر (اس کی مثال ایسی ہے) جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا‘ کہ اوپر ایک موج چھائی ہوئی ہے‘ اس پر ایک اور موج اور اس کے اوپر بادل. تاریکی پر تاریکی مسلط ہے‘‘. 
دوسرا مقام سورۂ ابراہیم کی آیت ۱۸ ہے: 

مَثَلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِرَبِّہِمۡ اَعۡمَالُہُمۡ کَرَمَادِۣ اشۡتَدَّتۡ بِہِ الرِّیۡحُ فِیۡ یَوۡمٍ عَاصِفٍ ؕ لَا یَقۡدِرُوۡنَ مِمَّا کَسَبُوۡا عَلٰی شَیۡءٍ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الضَّلٰلُ الۡبَعِیۡدُ ﴿۱۸﴾ 

’’جن لوگوں نے اپنے ربّ سے کفر کیا ہے ان کے اعمال (جو ظاہر میں نیکیاں نظر آتی ہیں) کی مثال اس راکھ کی سی ہے جسے ایک طوفانی دن کی آندھی نے اڑا دیا ہو. وہ اپنے کیے پر کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے (اس کا کچھ بھی پھل نہ پائیں گے). یہی پرلے درجے کی گمراہی ہے‘‘. 

یہ نیکیاں اس لیے قابل قبول نہیں کہ یہ ایمان کے محرک سے خالی‘ محض دکھلاوے کی نیکیاں ہیں.

اس سلسلے کا آخری مقام سورۃ الفرقان کی آیت ۲۳ ہے جس میں ایک عجیب نقشہ کھینچا گیا ہے. فرمایا: 
وَ قَدِمۡنَاۤ اِلٰی مَا عَمِلُوۡا مِنۡ عَمَلٍ فَجَعَلۡنٰہُ ہَبَآءً مَّنۡثُوۡرًا ﴿۲۳﴾ ’’پھر ہم پہنچے ان کے کاموں پر جو انہوں نے کیے تھے اور انہیں بنا ڈالا اڑتی ہوئی خاک‘‘. یہاں کفار کا ذکر ہو رہا ہے کہ انہوں نے اپنے خیال میں بڑے بڑے اعمال کیے ہوئے تھے ‘غریبوں کو کھانے کھلائے تھے. جیسا کہ ابوجہل نے کہا تھا جب اس سے پوچھا گیا تھا کہ کیا تمہارے خیال میں محمد( ) جھوٹ بول رہے ہیں جو یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اُن کے پاس وحی آتی ہے‘ وہ اللہ کے نبی ہیں؟ اس نے جواب میں کہا کہ آپ( ) نے کبھی جھوٹ نہیں بولا. پوچھا گیا تو پھر مانتے کیوں نہیں ہو؟ اس نے کہا: ہمارے اور بنوہاشم کے مابین ایک مسابقت اورمقابلہ چل رہا تھا‘ انہوں نے غریبوں کو کھانے کھلائے توہم نے ان سے بڑھ کر کھلائے. انہوں نے حاجیوں کی خدمت کی تو ہم نے ان سے بڑھ کر خدمت کی. تو ابھی تک ہم ان کے کندھے سے کندھا ملا کر آ رہے ہیں. اب اگر ہم بنوہاشم کے ایک فرد محمد ( ) کی نبوت مان لیں تو ہم تو ہمیشہ کے لیے غلام ہو جائیں گے! یہ ہمیں گوارا نہیں ہے.دیکھئے اِن کفار کے اندر بھی نیکی کا ایک تصور اور نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کا جذبہ پایا جاتا ہے‘ تاکہ زیادہ شہرت ہو جائے‘ زیادہ تعریف ہو‘ ان کی سخاوت کے زیادہ ڈنکے بجیں.مذکورہ بالا آیت میں ’’مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ‘‘ میں جو نکرہ کا استعمال ہوا ہے تو یہ تفخیم کے لیے ہے. یعنی ہم آگے بڑھ کر اُن کے بڑے بڑے اعمال کو گرد و غبار میں ملا دیں گے. بات سمجھانے کے لیے بلاتشبیہہ عرض کر رہا ہوں کہ جیسے ایک فٹ بال کھیلنے والا دوڑ کر آتا ہے ‘پھر بال کو ہٹ لگاتا ہے‘ اسی طریقے سےقَدِمۡنَاۤ اِلٰی مَا عَمِلُوۡا مِنۡ عَمَلٍ ’’ہم ان کے اعمال کی طرف بڑھیں گے‘‘ فَجَعَلۡنٰہُ ہَبَآءً مَّنۡثُوۡرًا ’’توہم اسے کر دیں گے گرد و غبار پھیلا ہوا‘‘. گویا وہ اعمال کیا تھے ‘ محض گرد و غبار اور راکھ تھی جو منتشر ہو گئی. 

دیکھئے کس قدر خوبصورت تمثیلیں بیان ہوئی ہیں. یہ فصاحت و بلاغت کی معراج ہیں. جیسے کہا جاتا ہے: 
’’کَـلَامُ المُلوکِ مُلوکُ الکَلَامِ‘‘ کہ بادشاہوںکا کلام‘ کلاموں کا بادشاہ ہوتا ہے. قرآن مجید میں یہ تینوں تمثیلیں ریاکارانہ نیکی کے لیے بیان ہوئی ہیں.ان سب کے لیے سادہ ترین تشریح‘ تفسیر اور تبیین رسول اللہ کی یہ حدیث اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ… ہے. اور میں آپ کے سامنے یہی بات پیش کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن اور حدیث کا باہمی رشتہ کیا ہے.

ہماری آج کی اس گفتگو سے ایک اور اہم مسئلہ بھی حل ہو رہا ہے . ہمارے نوجوان پوچھتے ہیں کہ کفار جو اتنے بڑے بڑے نیکی کے کام کرتے ہیں تو کیا انہیں کوئی اجر و ثواب نہیں ملے گا؟ جیسے ہندو پُن (کار خیر) کے کام کرتے ہیں. مثال کے طور پر گنگا رام ایک ہندو تھا‘ اس نے بہت بڑا ہسپتال بنایا. یا جیسے یورپ اور امریکہ میں رہنے والے انگریز اور عیسائی فلاح و بہبود کے بڑے بڑے ادارے قائم کرتے ہیں‘ اور نیکی کے بڑے بڑے کام کرتے ہیں. تو کیا اللہ کے ہاں ایسے لوگوں کے اعمال کی کوئی قدر و قیمت نہیں 
ہوگی؟دیکھئے یہ لوگ اللہ ‘ اس کے رسول اور آخرت کو نہیں مانتے تو پھر لازماًکوئی اور محرک ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ نیکی کے کام کرتے ہیں. اس کے ذریعے لازماً کوئی ریاکاری‘ شہرت یا سرکار دربار میں رسائی وغیرہ مقصود ہو گی.کوئی نہ کوئی نیت توہو گی‘ کیونکہ کوئی عمل نیت اور مقصد کے بغیر نہیں ہوتا.

کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ایک شخص رسول کو نہیں مانتا لیکن اللہ اور آخرت کو مانتا ہے‘ لہٰذا اس کے اعمال قابل قبول ہونے چاہئیں. اب سوال یہ ہے کہ ایسا شخص رسول کوکیوں نہیں مانتا؟ ایک ایسے شخص کا معاملہ تو علیحدہ ہے جس تک رسول کی دعوت نہیں پہنچی. ایسا شخص اگر توحید پر قائم ہو اور آخرت کو مانتا ہو تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے اعمال قبول ہوسکتے ہیں‘ کیونکہ رسالت کا پیغام اس تک پہنچا ہی نہیں. رسول اللہ کے زمانے میں آپؐ کا پیغام تو صرف عرب کی حدود تک پہنچا تھا‘ یا آپ نے جوخطوط لکھے تو وہ صرف بادشاہوں کو لکھے تھے‘ عوام تک تو نہیں گئے تھے. یا پھر جن علاقوں کو مسلمانوں نے فتح کیا تو وہاں کے لوگوں نے اسلام کو سمجھا‘ اسلام کو دیکھا‘ مسلمانوں کو دیکھا اور اسلام کی برکات کو دیکھا‘ لیکن جہاں مسلمان نہیں گئے وہاں اسلام کی تعلیمات نہیں پہنچیں. مثلاًچین میں رہنے والوں تک تو یہ پیغام نہیں پہنچا تھا‘ لہٰذا وہ مستثنیٰ ہوں گے ‘ان سے توحید پر معاملہ ہو گا. 

البتہ جن لوگوں تک رسالت کا پیغام پہنچ گیا ‘یہاں تک کہ اتنی بات بھی پہنچ گئی کہ محمد( )نام کے ایک شخص گزرے ہیں جنہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے ‘ تو وہ شخص تحقیق کر کے رسالت پر ایمان کا مکلف ٹھہرے گا. اور اگر وہ کوئی حق پرست ہو گا تو لازماً تحقیق کرے گا‘ بیٹھا نہیں رہے گا. اگر وہ حق کا طلب گار اور جویا ہے تو اس صورت میں لازماً اللہ اسے منزل تک پہنچا دے گا. ارشادِ باری تعالیٰ ہے : 
وَ الَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا ؕ (العنکبوت:۶۹’’اور جن لوگوں نے ہمارے راستے میں جدوجہد کی ہم انہیں لازماً اپنے (ہدایت کے) راستے دکھائیں گے‘‘. حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے تلاشِ حق میں کتنی محنت اور جدوجہد کی ہے. مجھے تو بسا اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی شخصیت ہر لحاظ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک شبیہہ(Replica) ہے. حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فارس میں پیداہوئے‘ باپ آتش کدے کا پجاری یا ذمہ دار تھا. ان کے دل میں یہ بات آئی کہ یہ کیا تماشا ہے کہ آگ ہم خود جلائیں‘ ایندھن ہم ڈالیں تو آگ جلے‘ پھر اسی آگ کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو جائیں! آپ نے بغاوت کی کہ میں ایک اللہ کو مانوں گا. جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اُن کے باپ نے گھر سے نکال دیا تھا اور کہا تھا:لَئِنۡ لَّمۡ تَنۡتَہِ لَاَرۡجُمَنَّکَ وَ اہۡجُرۡنِیۡ مَلِیًّا ﴿۴۶﴾ (مریم) ’’اگرتم باز نہ آئے تو میں تمہیں سنگسار کر دوں گا اور مجھ سے ایک مدت کے لیے دُور ہو جاؤ‘‘.ایسے ہی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو بھی ان کے باپ نے گھر سے نکال دیا. حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق کے شہر ’’اُر‘‘میں پیدا ہوئے. جیسے انہوں نے عراق سے شام کی طرف ہجرت کی ایسے ہی حضرت سلمان فارسیؓ نے ایران سے عراق کی طرف ہجرت کی. عراق سے متصل شام ہے اور ایران سے متصل عراق ہے . وہاں جا کر انہوں نے عیسائیت اختیار کر لی. اس لیے کہ اُس وقت تک عیسائیت ہی ’’اسلام‘‘ تھا‘ کیونکہ آنجناب کی ابھی تک بعثت نہیں ہوئی تھی. جب تک رسول اللہ کی بعثت نہیں ہوئی حضرت مسیح علیہ السلام ہی کا دَورِنبوت و رسالت جاری رہا. لہٰذا وہ عیسائی ہو گئے. اب وہ تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے لیے عیسائی راہبین کے پاس گئے.پہلے ایک کے پاس آئے اور تعلیم و تربیت حاصل کرتے رہے. اس کے انتقال کا وقت آیا تو فرمایا کہ میری تو ابھی تسلی اور اطمینان نہیں ہوا‘ میری طلب علم کی سیری ابھی نہیں ہوئی. اس نے مشورہ دیا کہ اچھا اب فلاں راہب کے پاس چلے جائو. وہاں پہنچ گئے‘ وہاں زیر تعلیم و تربیت رہے. اس کی بھی رحلت کا وقت آ گیا تو آپؓ نے اس سے بھی یہی کہا کہ میرے علم کی تشنگی ابھی باقی ہے. تب اس نے کہا کہ میرا علم مجھے بتا رہا ہے کہ جنوب کی طرف کھجوروں کی سرزمین میں نبی ٔآخر الزمان( ) کا ظہور ہونے والا ہے.

عیسائیوں میں رسول اللہ کے دَور میں بڑے حق پرست اور حق کا علم رکھنے والے لوگ موجود تھے .وہ سائمن (شمعون) کے پیروکار تھے اور موحدین تھے‘ جبکہ آج 
کی عیسائیت گمراہ ہو چکی ہے. آج کی عیسائیت پال ازم ہے. یہ سب سینٹ پال کے پیروکار ہیں‘ جس نے تثلیث ایجاد کی اور شریعت موسوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کو ساقط کر دیا. رسول اللہ کے عہد میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکار موجود تھے. آپ جانتے ہیں کہ بحیرہ راہب نے آنحضور کو بچپن میں پہچان لیاتھا جب آپ اپنے چچا ابوطالب کے ساتھ ایک قافلے کے ساتھ گئے. اس راہب نے آپؐ‘ کو پہچان کر ابوطالب سے کہا تھا کہ اس کی حفاظت کرنا‘ کہیں یہودی ان کو پہچان کر قتل نہ کر دیں. ایسے ہی ایک عیسائی راہب نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے کہا تھا کہ جاؤ! میرا علم بتا رہا ہے کہ نبی ٔ آخر الزماں( ) کا ظہور اب قریب ہے اور وہ ہو گا جنوب کی طرف کھجوروں کی سرزمین میں . حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے رخت سفر باندھا اور ایک قافلے میں شریک ہو گئے جو مدینہ منورہ کی طرف جا رہا تھا. راستے میں ڈاکوئوں نے قافلے کو لوٹ لیا اور ان کو گرفتار کر کے غلام بنا کر بیچ دیا. مدینہ منورہ کے ایک یہودی نے انہیں خریدا. چنانچہ یوں آپؓ مدینہ منورہ پہنچ گئے . یہ طلبِ صادق کا نتیجہ ہے . اب آگے مکہ مکرمہ نہیں جا سکتے‘ لیکن آپؓ ‘سن رہے ہیں کہ مکہ میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے‘ لیکن جائیں کیسے! پاؤں میں غلامی کی بیڑیاں پڑی ہوئی ہیں. یہاں تک کہ رسول اللہ ہجرت فرما کر خود تشریف لے آئے. گویا یہاں کنواں چل کر پیاسے کے پاس آگیا. اب آپؓ اپنے مالک سے کچھ کھجوریں حاصل کر کے رسول اللہ کے پاس پہنچ گئے. آپ نے پوچھا :’’یہ کیا ہے؟‘‘ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یہ آپ کے لیے صدقہ لایا ہوں. آپؐ نے فرمایا: ’’میں صدقہ نہیں لیتا‘یہ غریبوں کا حق ہے‘‘. یہ بات اس راہب نے آپؓ ‘کو بتائی تھی کہ یہ ان کی نشانی ہو گی کہ صدقہ قبول نہیں کریں گے ‘ ہدیہ قبول کر لیں گے. کچھ دنوں کے بعد حضرت سلمانؓ دوبارہ کھجوریں لے کر آپؐ ‘کی خدمت میں حاضر ہو گئے. آپ نے پوچھا یہ کیا ہے؟ فرمایا یہ ہدیہ ہے. آپؐ نے ہدیہ قبول کر لیا. اب آپؓ ایمان لے آئے.

غور فرمائیں کہ ایک انسان میں اگر طلب حق ہے تو وہ اس کے لیے کیا کیا مشقتیں 
جھیلتا ہے! لہٰذا اگر کسی شخص تک محمدٌ رسول اللہ کا پیغام پہنچ چکے اور پھر وہ ایمان نہ لائے تو یا تو وہ عصبیت جاہلی کے اندر اور اپنے زعم میں مبتلا ہے یا اس کے اندر طلب صادق اور طلب حق موجود نہیں ہے. اللہ تعالیٰ ہمارے تمام اعمال میں خلوص اور اخلاص‘کی روح پھونکے اور ہر عمل میں اپنی رضا اور آخرت کی فلاح پیش نظر رکھنے کی توفیق بخشے. 

اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات