انسان کے تخلیقی مراحل : قرآن کی روشنی میں

قرآن مجید میں دو سورتوں‘ سورۃ الحج اور سورۃ المؤمنون کا ایک جوڑا ہے جس میں خاص طو رپر علم الجنین اور رحم مادرمیں انسانی جنین کے ارتقائی مراحل کا تفصیل سے تذکرہ ہے . سورۃ الحج میں فرمایا : 

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ رَیۡبٍ مِّنَ الۡبَعۡثِ فَاِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ تُرَابٍ ثُمَّ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ ثُمَّ مِنۡ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِنۡ مُّضۡغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَّ غَیۡرِ مُخَلَّقَۃٍ لِّنُبَیِّنَ لَکُمۡ ؕ وَ نُقِرُّ فِی الۡاَرۡحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ثُمَّ نُخۡرِجُکُمۡ طِفۡلًا ثُمَّ لِتَبۡلُغُوۡۤا اَشُدَّکُمۡ ۚ وَ مِنۡکُمۡ مَّنۡ یُّتَوَفّٰی وَ مِنۡکُمۡ مَّنۡ یُّرَدُّ اِلٰۤی اَرۡذَلِ الۡعُمُرِ لِکَیۡلَا یَعۡلَمَ مِنۡۢ بَعۡدِ عِلۡمٍ شَیۡئًا ؕ 
(آیت۵
’’اے لوگو! اگر تمہیں (مرنے کے بعد) دوبارہ جی اٹھنے کے بارے میں کوئی شک ہے تو (ذرا اپنی تخلیق پر غورکرو کہ) ہم نے تمہیں پیدا کیا مٹی سے‘ پھر اس سے نطفہ بنا کر ‘ پھر اس سے علقہ بنا کر‘ پھر اس سے بوٹی بنا کر جس کی بناوٹ کامل بھی ہوتی ہے اور ناقص بھی‘ تاکہ تم پر (اپنی خالقیت) ظاہر کر دیں. پھر ہم جس کو 
چاہتے ہیں ایک میعاد مقرر تک رحم مادر میں ٹھہرائے رکھتے ہیں‘ پھر ہم تم کو بچہ بناکر نکالتے ہیں‘ پھر تم اپنی پوری قوت (جوانی) کو پہنچتے ہو ‘اور تم میں سے کچھ (قبل از پیری) مر جاتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو (بڑھاپے کی) بدترین عمر کو بھی پہنچا دیے جاتے ہیں کہ (جہاں پہنچ کر) سب کچھ جاننے کے بعد وہ کچھ نہیں جانتے.‘‘
اس آیت میں بڑھاپے کی عمر کو 
’’اَرْذَل الْعُمُر‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے .یہ انسان کی زندگی کا وہ حصہ ہے جب وہ پھر سے بچہ بن جاتا ہے اور جو کچھ اس نے پوری زندگی سیکھا پڑھا ہوتا ہے وہ سب ختم ہوجاتا ہے‘ حتیٰ کہ اس کی یادداشت بھی ختم ہوجاتی ہے. 

اب سورۃ المؤمنون کی ان آیات کی طرف آتے ہیں جو میں نے خطاب کے شروع میں تلاوت کی تھیں. ان میں پہلی آیت ہے: 
وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ سُلٰلَۃٍ مِّنۡ طِیۡنٍ ﴿ۚ۱۲﴾ ’’ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے گارے کے کشید کردہ جوہر سے ‘‘. سُلٰلَہ کہتے ہیں کسی چیز کو کھینچ لینا. تلوا رکو میان میں سے کھینچنے کے لیے بھی فعل سَلَّ یَسُلُّ استعمال ہوتا ہے. کسی چیز کا عرق نکالنے کا ایک نظام ہے کہ اس کو پانی میں ڈال کر‘اس کے نیچے آگ جلا کر ‘اور ایک لمبے process سے گزار کر عرق کشید ہوتا ہے . یہاں فرمایا کہ ’’ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے گارے کے کشید کردہ جوہرسے ‘‘. ثُمَّ جَعَلۡنٰہُ نُطۡفَۃً فِیۡ قَرَارٍ مَّکِیۡنٍ ﴿۪۱۳﴾ ’’پھر اس کو ایک مضبوط (اور محفوظ) جگہ میں نطفہ بنا کر رکھا‘‘. رحم مادر کی دیوار بڑی مضبوط ہوتی ہے اور وہ نطفہ اس کے اندر مضبوطی سے جما ہوا (embeded) ہوتا ہے. ثُمَّ خَلَقۡنَا النُّطۡفَۃَ عَلَقَۃً’’پھر ہم نے نطفے کوعلقہ کی شکل دی‘‘ . وہ نطفہ جب بڑھتا ہے تو رحم مادر کی دیوار سے ابھر کر‘ bulge out کر کے لٹکنے لگتا ہے ‘اس لیے اس حالت کو ’’عَلَقَۃ‘‘ یعنی لٹکی ہوئی چیز سے تعبیر کیا گیا ہے.فَخَلَقۡنَا الۡعَلَقَۃَ مُضۡغَۃً ’’پھر اسی علقہ کو ہم گوشت کا ایک لوتھڑا بنا دیتے ہیں ‘‘ فَخَلَقۡنَا الۡمُضۡغَۃَ عِظٰمًا ’’پھر اسی لوتھڑے کے اندر ہڈیاں بنا دیتے ہیں‘‘ فَکَسَوۡنَا الۡعِظٰمَ لَحۡمًا ٭ ’’پھر ہم ان ہڈیوں پر گوشت چڑھاتے ہیں‘‘ ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰہُ خَلۡقًا اٰخَرَ ؕ ’’پھر ہم اسے اٹھاتے ہیں ایک اور ہی تخلیق پر‘‘. فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحۡسَنُ الۡخٰلِقِیۡنَ ﴿ؕ۱۴﴾ ’’پس بہت بابرکت ہے اللہ جو بہترین پیدا کرنے والا ہے.‘‘