اس آیت میں ’’خَلْقًا اٰخَرَ‘‘ کا ذکر آیا ہے . یہ خَلْقًا اٰخَرَ کیا ہے ؟اس کا جواب اربعین نووی کی زیرمطالعہ حدیث میں آیا ہے. حدیث کے راوی حضرت ابوعبدالرحمن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں جو کبارِ صحابہ اور فقہاءِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ہیں. وہ فرماتے ہیں: حَدَّثَـنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ  وَھُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوْقُ ’’ہمیں اللہ کے رسول نے یہ بات بتائی اور (جان لو کہ جنہوں نے ہمیں بتایا )وہ صادق اور مصدوق ہیں‘‘.یعنی وہ سچے ہیں اور ان کی صداقت پر اللہ گواہ ہے.

اس روایت کے شروع میں 
’’وَھُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوْقُ‘‘ کے الفاظ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کیوں کہے ؟حالانکہ اور بھی متعدد روایات حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہیں ‘لیکن کسی اور روایت میں تمہیداً یہ الفاظ نہیں آتے ‘تو پھریہاں کیوں آئے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس روایت میں ایک ایسی بات سامنے آ رہی ہے جو اُس وقت تک انسان کی ذہنی سطح اور مادی معلومات کے اعتبار سے کچھ ناقابل فہم سی تھی. لہٰذا اس بات کو بیان کرنے سے پہلے خاص طور پر تاکید کے انداز میں کہا جا رہا ہے کہ یاد رکھو ‘یہ کہنے والے محمدرسول ٌاللہ ہیں ‘جو سچے ہیں اور اللہ نے ان کی صداقت کی تصدیق بھی کی ہے. 

حدیث کا متن ان الفاظ سے شروع ہو رہا ہے :
 اِنَّ اَحَدَکُمْ یُجْمَعُ خَلْقُہٗ فِیْ بَطْنِ اُمِّہٖ اَرْبَعِیْنَ یَوْمًا نُطْفَۃً ’’تم میں سے ہر شخص کی تخلیق ہوتی ہے اس کی ماں کے رحم میں چالیس دن تک نطفے کی شکل میں‘‘ ثُمَّ یَـکُوْنُ عَلَقَۃً مِّثْلَ ذٰلِکَ ’’پھر اتنا ہی عرصہ وہ علقہ کی شکل میں ہوتا ہے‘‘ ثُمَّ یَـکُوْنُ مُضْغَۃً مِّثْلَ ذٰلِکَ ’’پھر اتنا ہی عرصہ (یعنی چالیس دن) وہ ایک لوتھڑے کی شکل میں ہوتا ہے‘‘. جب یہ چالیس+چالیس+چالیس= ایک سو بیس دن یعنی چار ماہ مکمل ہو جاتے ہیں : ثُمَّ یُرْسَلُ اِلَـیْہِ الْمَلَکُ ’’پھر اُس کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے ‘‘ فَـیَنْفُخُ فِیْہِ الرُّوْحَ ’’پس وہ اس میں روح پھونک دیتا ہے.‘‘