آج دنیا میں تخلیق ِکائنات (Creation of the Universe) کا جوتصور ہے اس میں یہ بات تقریباً متفق علیہ ہے کہ اس کائنات کی کوئی ابتداہے. کچھ عرصہ پہلے تک‘ بابائے طبیعیات نیوٹن کے دور میں تخلیق کائنات کے حوالے سے یہ تصور تھا کہ یہ کائنات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی ‘ مادہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اور یہ کبھی ختم نہیں ہوسکتا .اس کے بعد آئن سٹائن کے ذریعے دنیائے طبیعیات میں انقلاب عظیم آیا اور آج محققین کا اس پر تقریباً اجماع ہے کہ اس کائنات کا ایک آغاز (beginning) ہے اور انہوں نے اس کو Big Bang کا نام دیاہے . یعنی اربوںسال پہلے ایک بہت بڑا دھماکہ ہوا اور پھر اس سے کائنات کا آغاز ہوا.اس کے ساتھ ساتھ اب یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ اس کائنات کا ایک اختتام (end) بھی ہے‘ جسے قرآن ’’اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی‘‘ سے تعبیر کرتاہے. یعنی یہ کائنات ہمیشہ کے لیے نہیں ہے بلکہ ایک خاص معینہ مدت تک رہے گی اور اس کے بعد اس کائنات کا خاتمہ ہو جائے گا. Big Bang کے نتیجے میں حرات کا وہ گولہ وجود میں آیا جو بہت چھوٹے چھوٹے ذرات پر مشتمل تھا‘ جن کا درجہ حرارت ناقابل تصور حد تک بلند تھا اور یہ ذرات ایک دوسرے سے دُور بھاگتے تھے .یہ اس مادی دنیا کی شروعات کا پہلا مرحلہ تھا. مرورِ زمانہ کے ساتھ ان ذرات کی حرارت میںکمی آتی چلی گئی. پھر یہ ذرات تیزی سے حرکت کرتے ہوئے قریب آئے اور مختلف forms میں اکٹھے ہوئے تو کہکشائیں (galaxies) وجود میں آئیں- پھر یہ کہکشائیں ایک دوسرے سے دور بھاگتی رہیں. آج بھی یہ مانا جا رہا ہے کہ کائنات ابھی پھیل رہی ہے اور کہکشاؤں کے درمیان فاصلہ بڑھ رہا ہے . اس کی بڑی پیاری مثال دی جاتی ہے کہ اگر آپ ایک غبارے کے اوپر کچھ نقطے ( dots) لگا دیں‘ اور پھر اس غبارے کو آپ جتنا پھلائیں گے‘ ان نقطوں (dots) کے مابین فاصلہ بڑھتا چلا جائے گا. اسی طرح ان کہکشاؤں کے درمیان فاصلے بڑھنے سے کائنات میں وسعت ہو رہی ہے .نظریہ توسیع کائنات (Theory of the Expanding Universe) کے حوالے سے اقبال نے کہا ہے ؎

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکون!

قرآن مجید میں بھی اس کی طرف اشارہ موجود ہے : 
یَزِیۡدُ فِی الۡخَلۡقِ مَا یَشَآءُ ؕ (فاطر:۱’’وہ اپنی تخلیق میں وسعت کر دیتاہے جس قدر چاہتا ہے.‘‘

کہکشائیں بننے کے بعد پھروہ دور آیا کہ جب ان کے اندر ستارے اور سیارے بنے. ان ستاروں میں ایک ستارہ ہمارا سورج بھی تھا‘جس کے اندر مزیدٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں اس کے سیارے وجود میں آئے. ان ہی سیاروں میں سے ایک سیارہ ہماری یہ زمین ہے. ابتدا میں یہ سورج کی طرح آگ کا کرہ تھا لیکن آہستہ آہستہ یہ ٹھنڈا ہوا اور ٹھنڈا ہونے سے یہ سکڑگیا. اس کی وجہ سے اس پر نشیب و فراز پیدا ہوئے .پھر اس میں سے جو بخارات نکلے انہوں نے زمین کے غلاف ’’فضا‘‘ 
(atmosphere) کی شکل اختیار کی. پھر اس فضا میں موجود گیسز ہائیڈروجن اور آکسیجن کے باہمی ملاپ (interaction) سے پانی وجود میں آیا اور یہ پانی ہزارہابرس تک زمین پر برستا رہا‘ جس سے سمندر وجود میں آئے. زمین ٹھنڈی ہونے سے اس پر خاک کی ایک تہہ پیدا ہو گئی جسے ’’قشر ِارض‘‘ (Crust of the Earth) کہا جاتا ہے. پھر اس خاک اور پانی کے امتزاج سے اس کرۂ ارضی پر حیات کا آغاز ہواجو کروڑوں سال کے ارتقائی مراحل سے گزر کر اپنے آخری نتیجہ کو پہنچی‘ جو آج کے نظریے کے مطابق موجودہ انسان(Homo sapiens) ہیں. 

یہ میں نے آج کا نظریہ تخلیق آپ کے سامنے رکھ دیاہے. اس میں پہلے حصوں کے بارے میں تو اب کوئی اختلاف نہیں ہے‘البتہ نظریۂ ارتقاء 
(Theory of Evolution) کے بارے میں اختلافات اب بھی ہیں. بہرحال یہ ایک نظریہ ہے. اگرچہ علم الحیات (Biology) کے میدان میں اس نظریہ ارتقاء کو من وعن قبول نہیں کیا گیا‘لیکن اس کو ایک حقیقت کے اعتبارسے (as a matter of fact) تسلیم کیا جاتا ہے. اس لیے کہ انسان کی سوچ ‘سوشل سائنسز اور ہر چیز میں ارتقاء کا تصور موجود ہے.