آغازِتخلیق ِکائنات سے پہلے ارواحِ انسانیہ کی تخلیق

آج کے اس نظریہ تخلیق میں حقیقت انسان کے حوالے سے ایک اہم بات کا تذکرہ موجود نہیں ہے‘ وہ یہ کہ اس Big Bang یعنی مادی کائنات کی شروعات سے پہلے بھی ایک دور ہے جسے سائنس نہ دیکھ سکتی ہے ‘ نہ جان سکتی ہے ‘نہ اس تک اس کی پہنچ ہے . جیسے اللہ تعالیٰ کے ایک حرف ’’کُنْ‘‘ سے ایک بہت بڑا دھماکہ (Big Bang) ہوا جس سے اس مادی کائنات کا آغاز ہوا‘ اسی طرح اس سے بہت پہلے اللہ تعالیٰ کے اوّلین حرفِ کُنْ سے ایک بہت لطیف نور پیدا ہوا.اس کو لطیف نور کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس مرحلہ پر اس میں نہ حرارت تھی اور نہ حرکت . پھراس لطیف نور سے انسانی ارواح اور فرشتے پیدا کیے گئے. (واضح رہے کہ یہ اس عظیم دھماکے سے پہلے (Pre Big Bang) کامعاملہ ہے.) ارواحِ انسانیہ اور فرشتے مادہ نہیں ہیں اور ان کا تعلق اس مادی کائنات (material universe) سے نہیں ہے اُس وقت انسانی وجود موجود نہیں تھے‘صرف ارواح تھیں .حضرت آدمؑ سے لے کر اس دنیا میں قیامت تک آنے والے آخری انسان تک کی روح موجود تھی اور اُس وقت اللہ نے ان سے ’’عہدالست‘‘ لیا تھا: اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی ۚۛ شَہِدۡنَا ۚۛ (الاعراف:۱۷۲’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں‘ ہم اس پر گواہ ہیں.‘‘

عہد لینے کا یہ واقعہ عالم ارواح میں وقوع پذیر ہوا تھا جبکہ انسانی جسم ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے. اب جو آدمی اس بات کو نہیں مانتا وہ کیسے سمجھے گا کہ کس سے اور کس وقت یہ عہد لیا گیاتھا؟ جدید دور کے ایک مفسر نے اپنی تفسیر میں لکھا تھا کہ ’’یہ عہد انسان کی تخلیق سے قبل عالم غیب میں لیا گیاتھا‘‘. میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ کا یہ جملہ تومہمل ہے‘ اس لیے کہ جوشے پیدا ہی نہیں ہوئی اس سے کیسے عہدلے لیاگیا؟ عہد اور معاہدہ ہوتا ہی ان کے درمیان ہے جو موجود ہوں اور پھر اس میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ میں بقائمی ہوش و حواس 
full consciousness) کے ساتھ)اقرار کر تاہوں‘عہد کرتا ہوں‘ معاہدہ کرتا ہوں. میرے توجہ دلانے پر انہوں نے تسلیم کیا کہ آپ کا موقف ٹھیک ہے کہ یہ عہد‘ اجسادِ انسانیہ کی تخلیق سے قبل ارواحِ انسانیہ سے عالم ارواح میں لیا گیا تھا. 

یہاں وہ مشہور روایت بھی نوٹ کر لیجیے جو روحِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں ہے . حدیث کے الفاظ ہیں: 
اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُـوْرِیْ (۱’’پہلی شے اللہ نے جو تخلیق کی وہ میرا نور تھا‘‘.بریلوی مکتبہ فکر کے علماء کے ہاں تو یہ روایت قابل ِاعتماد سمجھی جاتی ہے ‘ لیکن اہل ِحدیث مکتبہ فکر ‘جو روایت اور سندپر زیادہ زور دینے والے ہیں‘ وہ اس حدیث کو تسلیم نہیں کرتے.