عالم ِارواح میں‘ جبکہ ابھی مادی دنیا (material world) کی شروعات نہیں ہوئی تھیں ‘جاری وقت (serial time) کا کوئی تصور نہیں تھا. یہی وجہ ہے کہ عالم ارواح میں جو کچھ ہوتاہے اس میں وقت نہیں لگتا . صرف ایک حرف ’’کُنْ‘‘سے تمام ارواح انسانیہ وجود میں آ گئیں. البتہ عالم خلق میں آ کر تخلیق کے مراحل میں وقت لگتا (۱) شرح الموافق للسیوطی:۲۱ ہے ‘جیسے آسمان اور زمین کے متعلق آتا ہے کہ یہ چھ دنوں میں پیدا کیے گئے‘ اوروہ دن ہمارے چوبیس گھنٹوں والے دن نہیں ہیں‘بلکہ چھ ادوار ہیں. اسی طرح انسان کے نطفے سے لے کر ایک بچے کے مکمل ہونے تک نو مہینے لگتے ہیں. الغرض عالم خلق میں تو وقت لگتا ہے لیکن عالم ارواح میں وقت کا کوئی تصور نہیں ہے. یہی وجہ ہے کہ جبریل کو عرشِ معلی سے یہاں آنے میں کوئی وقت نہیں لگتا ‘اس لیے کہ فرشتے اس دور کی تخلیق ہیں جبکہ ٹائم ابھی پیداہی نہیں ہوا تھا. time and space کا تصور تو بگ بینگ کے بعد کا ہے. اسی طرح حرکت کا تعلق بھی وقت کے تصور کے ساتھ ہے. لہٰذا یہ ارواح انسانیہ اس دور میں پیدا کی گئیں جبکہ ابھی مادی کائنات کی ابتدا نہیں ہوئی تھی اور پھر ان کو ایک ’’کولڈ سٹوریج‘‘ میں رکھ دیا گیا .اس کے بعد تنزلات اور ارتقاء کا لمبا سفر شروع ہوا. 

’’تنزلات‘‘ اور ’’ارتقاء‘‘ کی اصطلاحات فلسفہ میں ایک دوسرے کے متضاد سمجھی جاتی ہیں. قدیم فلسفیوں نے تخلیق کائنات کے بارے میں منطق کے زور پر اپنے تصورات پیش کیے اور عقول ِعشرہ‘ ُنہ افلاک‘ تنزلاتِ ستہ اور تنزلاتِ خمسہ تجویز کیے. ان تصورات کے مطابق سب سے پہلے وجود باری تعالیٰ سے عقل ِاوّل وجود میں آئی. عقل اول سے پھر فلک ِاول اور پھر فلک ِثانی وغیرہ لیکن ان تصورات کی کوئی دلیل نہ تو قرآن یا حدیث میں ہے اور نہ ہی سائنس ان کی تائید کرتی ہے.