انسان کا مادۂ تخلیق ’’مٹی‘‘ اور ِجنوں ّکا ’’آگ‘‘

کائنات کی تخلیق کے آغاز کے بارے میںمیری سوچ مطالعہ قرآن حکیم اورسائنس کی روشنی میں بنی ہے اور آپ کو اس پورے تصور اور سائنس کے درمیان مکمل ہم آہنگی نظر آئے گی .سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے کلمہ کُنْ سے نور کی تخلیق ہوئی ‘ جبکہ اس نور میں ا بھی نہ حرارت تھی اور نہ حرکت ‘اور پھر اس نور سے ارواحِ انسانیہ اور ملائکہ کی تخلیق ہوئی. اس کے بعد Big Bang کے نتیجے میں شدید ترین حرارت رکھنے والے ذرات وجود میں آئے . اس دَور میں ِجنات ّپیدا کیے گئے. قرآن مجید جنات کی تخلیق کے حوالے سے کہتا ہے : خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ کَالۡفَخَّارِ ﴿ۙ۱۴﴾وَ خَلَقَ الۡجَآنَّ مِنۡ مَّارِجٍ مِّنۡ نَّارٍ ﴿ۚ۱۵﴾ (الرحمٰن) ’’اسی نے انسان کو ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی مٹی سے بنایا اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا‘‘. سورۃ الحجرمیں فرمایا: وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ ﴿ۚ۲۶﴾وَ الۡجَآنَّ خَلَقۡنٰہُ مِنۡ قَبۡلُ مِنۡ نَّارِ السَّمُوۡمِ ﴿۲۷﴾ ’’اور ہم نے انسان کو َسنے ہوئے گارے کی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا. اور اس سے پہلے جنات کو بے دھوئیں کی آگ سے پیدا کیا‘‘.بادِ سموم اس ہوا کو کہتے ہیں جس میں آگ جیسی تپش ہو. سخت ُلوخاص طور پر صحرا کی لو سے آپ اس کا تصور کر سکتے ہیں .اس حرارت سے جنات پیدا کیے گئے. یہ جنات اس زمین کی پیداوار نہیں ہیں‘ مٹی کی پیداوار نہیں ہیں ‘ بلکہ یہ ایک لطیف تر شے سے بنے ہیں‘ جبکہ ہم انسان تو مٹی سے بنے ہیں‘ چاہے ارتقاء (evolution) کے لمبے process کے ذریعے بنے ہوں یا ہماری بلاواسطہ تخلیق (direct creation) ہوئی ہو‘ لیکن ہیں تو مٹی سے. اس بارے میں تو قرآن اور سائنس دونوں متفق ہیں کہ انسان کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے.

سائنس بھی کہتی ہے کہ انسان کی تخلیق مٹی (crust of the earth) سے ہوئی ہے اور قرآن بھی کہتا ہے : ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ تُرَابٍ (المؤمن:۶۷’’(اللہ ہی وہ ذات ہے) جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ‘‘.سورۂ صٓ میں فرمایا: اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنۡ طِیۡنٍ ﴿۷۱﴾ ’’جب کہا تیرے پروردگار نے فرشتوں سے کہ میں ایک انسان پیدا کرنے والا ہوں مٹی سے‘‘. سورۃ الانبیاء میں ہر ذی حیات کے منبع حیات کے بارے میں فرمایا گیا: وَ جَعَلۡنَا مِنَ الۡمَآءِ کُلَّ شَیۡءٍ حَیٍّ ؕ (آیت۳۰’’اور ہم نے بنایا ہر زندہ چیز کو پانی سے‘‘ چنانچہ ہر شے میں حیات کا سرچشمہ اور منبع پانی ہے اورحیواناتِ ارضی‘ جن میں انسان بھی شامل ہے ‘ کا مادۂ تخلیق مٹی ہے. سائنس کا بھی یہی نکتہ نظر ہے کہ زمین پر سمندروں کے وجود میں آنے کے بعد سمندرکے کناروں پر‘ دلدلی جگہوں پر یہ ہوتا تھا کہ کبھی پانی پیچھے ہٹ جاتا اور کبھی آگے آ جاتا. یہ تعامل کافی عرصہ چلتا رہا اوراس کے نتیجے میں وہاں اولاً غیر نامیاتی مرکبات (inorganic compunds) اور اس کے بعد نامیاتی مرکبات (organic compunds) وجود میں آئے. اور بالآخراسی کے اندر حیات کاجرثومہ (cell) ’’امیبا‘‘کی صورت میں پیدا ہوا. اس کے بعد حیات کا مرحلہ وار ارتقاء ہوا اور اس کے بلند ترین مرحلے پر انسان کی تخلیق ہوئی.میں اِس وقت اس نظریے کی نہ تو تصدیق کر رہا ہوں اور نہ تردید‘ بس آپ کو اتنا بتا رہا ہوں کہ قرآن اور سائنس دونوں اس پر متفق ہیں کہ انسان کی تخلیق مٹی اور پانی سے ہوئی ہے. البتہ سائنس اس حقیقت سے ناآشنا ہے کہ جسد ِآدمؑ کی تخلیق کے بعدخالق ِکائنات نے اس وجود میں اپنی روح میں سے پھونکا.

اس کے بعد یہی سلسلہ ہر انسان کے تخلیقی مراحل میں دہرایا جاتا ہے .البتہ یہاں ایک خلیہ سے رحم مادر میں بچہ نو ماہ میں پروان چڑھتا ہے ‘لیکن ہو سکتا ہے کہ ابتدا میں ایک جرثومے سے انسان بننے تک کا معاملہ نو ملین سال میں ہوا ہو اس جرثومہ کے ارتقاء کے مراحل وہی ہیں جوماقبل بیان ہو ئے ‘لیکن اصل یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ آغاز سے ہی اس میں حیات ہے ‘اس لیے کہ وہ ہر مرحلہ میں زندہ ہے. باپ کی طرف سے آنے والا نطفہ بھی زندہ ہے‘ ماں کی طرف سے آنے والا بیضہ بھی زندہ ہے‘ عَلقہ بھی زندہ ہے‘ مُضغہ بھی زندہ ہے. پھر مرد کے نطفے اور ماں کے بیضہ کے امتزاج سے وجود میں آنے والاجفتہ 
(zygote) ‘ جسے قرآن نے ’’نطفۃ امشاج‘‘ سے تعبیر کیا ہے‘ وہ بھی زندہ ہے. پھر جب۱۲۰ دن ہو جاتے ہیں تو اب ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے‘جو عالم ارواح سے اس انسان کی روح (جوBig Bang سے بھی کہیں پہلے وجود میں آچکی تھی) لا کر اس کی والدہ کے رحم میں اس کا جو ہیولا وجود میں آیا ہے‘ اس کے اندر ڈال دیتاہے. اس کے بعد یہ وجود انسان کی شکل اختیار کرتا ہے. یہ ہے ’’حقیقت انسان‘‘.