میرے نزدیک اس ضمن میں سب سے بڑا المیہ (the biggest tragedy) یہ ہے کہ ہمارے ذہنوں پر ڈارون کے ارتقاء کا فلسفہ چھا گیا ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ہم اپنے آپ کو صرف ایک حیوان سمجھتے ہیں اور اس سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں. زیادہ سے زیادہ ہم اپنے آپ کو نسبتاً زیادہ ارتقاء یافتہ حیوان سمجھتے ہیں. لہٰذا جتنا فرق گدھے اور گھوڑے میں ہے بس اتنا ہی فرق گوریلا اور انسان میں سمجھا جاتا ہے کہ نوعیت کا فرق نہیں ہے‘ بس کمیت کا فرق ہے. اپنے آپ کو حیوان سمجھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم اپنی اس عظمت سے مستعفی ہو چکے ہیں جس کی بنا پر انسان مسجودِ ملائک اور خلیفۃ اللہ قرار پایا تھا. پھر اس سب کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں سارا سبق ‘ ساری رہنمائی حیوانوں کی زندگی سے حاصل کر رہے ہیں. اس حوالے سے یورپ میں باقاعدہ لٹریچر فروغ دیاجا رہا ہے کہ حیوانوں میں چونکہ ماں‘ بیٹی‘ بہن‘ بیوی کا کوئی فرق نہیں ہوتا ہے اس لیے انسانوں میں بھی محرمات کا کوئی تصور نہیں ہے‘ یہ تو خواہ مخواہ ہم انسانوں نے ایسے قانون بنا لیے ہیں اور ایسی پابندیاں اپنے اوپر عائد کر لی ہیں.اس سب کی وجہ وہی ہے کہ ہم نے اپنی عظمت کو بھلا دیا ہے اور اب ہمیںزندگی کا سارا سبق حیوانوں سے مل رہا ہے. 

انسان کے لیے اس حقیقت کو سمجھ لینا ضروری ہے کہ میرا مادی وجود تو میرا حقیر سا پہلو ہے‘جبکہ میری اصل حقیقت وہ روح ربانی ہے جو میرے اندر پھونکی گئی ہے. وہ روح ربّ العالمین کی طرف سے آئی ہے اور وہیںلوٹ جائے گی: انا للہ وانا الیہ راجعون ’’بے شک ہم اللہ کے ہیں اور پھر اسی کی طرف لوٹ جائیں گے‘‘. جبکہ ہمارا یہ مادی وجود مٹی سے بنا ہے اور پھر مٹی ہی میں چلا جائے گا. عربی کا مقولہ ہے : 
کُلُّ شَیْئٍ یَرْجِعُ اِلٰی اَصْلِہٖ ’’ہر چیز اپنی اصل کی طرف لوٹ جاتی ہے‘‘.روح وہاں سے آئی ہے وہیں جائے گی‘ جسد یہاں سے آیا ہے‘ یہیں رہ جائے گا. یہ ہے انسان کی حقیقت!