نظریہ ارتقاء کا ُموجد ِڈاروِن نہیں ہے

اس حوالے سے آ پ ایک اور بات بھی نوٹ کر لیں کہ نظریہ ارتقاء اصل میں چارلس ڈارون(۱۸۰۹ء تا۱۸۸۲ء) کا نظریہ نہیں ہے . ارتقاء کو ڈارون کا نظریہ کہنا اور ڈارون کو اس کا موجد سمجھنا ایک بڑی غلطی ہے .جن لوگوں کو ان موضوعات سے دلچسپی ہو وہ اس موضوع پر میرے دو کتابچوں کا ضرور مطالعہ کریں: (i)زندگی‘ موت اور انسان:آئینہ قرآنی میں(ii)ایجاد و ابداع عالم سے عالمی نظامِ خلافت تک‘ تنزلات و ارتقاء کے مراحل حقیقت یہ ہے کہ حیاتِ ارضی میں ارتقاء کا تصور قدیم یونانی حکماء کے ہاں بھی موجود تھا اور اس کا نہایت واضح نقشہ صدیوں پہلے مسلمان حکماء اور علماء بھی پیش کر چکے ہیں. چنانچہ فلسفہ ارتقاء ڈارون سے لگ بھگ چھ سو برس قبل مولانا روم کی شہرۂ آفاق اور زندۂ جاوید ’’مثنوی‘‘ میں واضح طو رپر دو مقامات پر موجود ہے. اس کے علاوہ ہمارے بڑے حکماء میں سے ابن مسکویہ نے سب سے پہلے فلسفہ ارتقاء پیش کیا. ڈارون نے توارتقاء کی صرف توجیہہ کی ہے اور اس کا جو فلسفہ ہے وہ غلط ہے‘ وہ تو ثابت ہی نہیں ہو سکا. اس کا خاص میدان علم الحیات(Biology) ہے جس میں اس نے بہت محنت کی ہے‘ لیکن اس میں اس کا نظریہ مانا نہیں جاتامیں حیوانِ انسان کی تخلیق کی حد تک نظریہ ارتقاء کا قائل ہوں . میرے نزدیک اس کی توجیہہ یہ ہے کہ ہر نئی نوع (species) کے لیے اللہ کا ایک نیا حرفِ کُنْ آتا ہے: اِنَّمَاۤ اَمۡرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیۡئًا اَنۡ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ﴿۸۲﴾ (یٰسٓ) ’’اس کے امر (کی شان) توبس یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ فرما لیتا ہے تو (بس یہ) کہتا ہے :’ہوجا‘ تو وہ ہوجاتی ہے.‘‘