۱۰/اور ۱۷/اگست ۲۰۰۷ء کے خطاباتِ جمعہ 
خطبۂ مسنونہ کے بعد : 

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

سَبِّحِ اسۡمَ رَبِّکَ الۡاَعۡلَی ۙ﴿۱﴾الَّذِیۡ خَلَقَ فَسَوّٰی ۪ۙ﴿۲﴾وَ الَّذِیۡ قَدَّرَ فَہَدٰی ۪ۙ﴿۳﴾ 
(الاعلٰی) 
مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّبۡرَاَہَا ؕ اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ ﴿ۚۖ۲۲﴾لِّکَیۡلَا تَاۡسَوۡا عَلٰی مَا فَاتَکُمۡ وَ لَا تَفۡرَحُوۡا بِمَاۤ اٰتٰىکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرِۣ ﴿ۙ۲۳﴾ 
(الحدید) 
قُلۡ لَّنۡ یُّصِیۡبَنَاۤ اِلَّا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا ۚ ہُوَ مَوۡلٰىنَا ۚ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۵۱﴾ 
(التوبۃ) 
وَ مَا تَشَآءُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿٪۲۹﴾ 
(التکویر) 
عَنْ اَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ  قَالَ : حَدَّثَـنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ  وَھُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوْقُ : 

اِنَّ اَحَدَکُمْ یُجْمَعُ خَلْقُہٗ فِیْ بَطْنِ اُمِّہٖ اَرْبَعِیْنَ یَوْمًا نُطْفَۃً‘ ثُمَّ یَـکُوْنُ عَلَقَۃً مِّثْلَ ذٰلِکَ‘ ثُمَّ یَـکُوْنُ مُضْغَۃً مِّثْلَ ذٰلِکَ‘ ثُمَّ یُرْسَلُ اِلَـیْہِ الْمَلَکُ فَـیَنْفُخُ فِیْہِ الرُّوْحَ وَیُؤْمَرُ بِاَرْبَعِ کَلِمَاتٍ ‘ بِکَتْبِ رِزْقِہٖ ‘ وَاَجَلِہٖ ‘ وَعَمَلِہٖ ‘ وَشَقِیٌّ اَوْ سَعِیْدٌ ‘ فَـوَ اللّٰہِ الَّذِیْ لَا اِلٰــہَ غَیْرُہُ ! اِنَّ اَحَدَکُمْ لَـیَعْمَلُ بِعَمَلِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ مَا یَکُوْنُ بَیْنَہُ وَبَیْنَھَا اِلاَّ ذِرَاعٌ ‘ فَـیَسْبِقُ عَلَیْہِ الْکِتَابُ‘ فَـیَعْمَلُ بِعَمَلِ اَھْلِ النَّارِ ‘ فَـیَدْخُلُھَا ‘ وَاِنَّ اَحَدَکُمْ لَـیَعْمَلُ بِعَمَلِ اَھْلِ النَّارِ‘ حَتّٰی مَا یَـکُوْنُ بَیْنَہُ وَبَیْنَھَا اِلاَّ ذِرَاعٌ ‘ فَیَسْبِقُ عَلَیْہِ الْکِتَابُ‘ فَیَعْمَلُ بِعَمَلِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ ‘ فَـیَدْخُلُھَا (۱
’’ابوعبدالرحمن‘ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ وہ کہتے ہیں : رسول اللہ نے ہم سے بیان فرمایا اور وہ صادق و مصدوق ہیں:

’’تم میں سے ہر ایک کی تخلیق یوں ہوتی ہے کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس یوم تک نطفہ کی صورت میں‘ اس کے بعد اتنے ہی روز تک علقہ کی صورت میں ‘اور اس کے بعد اتنے ہی روز گوشت کے لوتھڑے کی صورت میں رہتا ہے. بعدازاں اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے ‘پس وہ اس میں روح پھونکتا ہے اور اسے (یعنی فرشتہ کو)اس پیدا ہونے والے کے متعلق چار باتیں‘ رزق‘ عمر‘عمل اور اس کے شقی (بدبخت) یا سعید (نیک بخت) ہونے کے متعلق‘ لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے. پس قسم ہے اُس اللہ کی جس کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں! تم میں سے کوئی آدمی اہل جنت کے سے اعمال کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اُس کے اور جنت کے مابین صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ باقی رہ جاتا ہے تو اُس پر وہ سابقہ تحریر غالب آجاتی ہے اور وہ شخص اہل جہنم کا سا عمل کر کے جہنم میں چلا جاتا ہے .اور ایک شخص اہل جہنم کے سے عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اُس کے اور جہنم کے درمیان صرف ایک ہاتھ کافاصلہ باقی رہ جاتا ہے تو وہ سابقہ تحریر اُس پر غالب آجاتی ہے اور وہ شخص اہل جنت کا سا عمل کر کے جنت میں چلا جاتا ہے.‘‘

معزز سامعین کرام!
امام نووی رحمہ اللہ علیہ کی مشہور کتاب ’’اربعین‘‘ کی چوتھی حدیث ہمارے زیر مطالعہ ہے. اس حدیث کے ابتدائی حصے پر گفتگو پچھلے خطاب میں ہوچکی ہے جس میں انسان کے تخلیقی مراحل کا تذکرہ ہے. اس کے ضمن میں ’’حقیقت انسان‘‘ جیسے اہم موضوع پر 
(۱) صحیح البخاری‘ کتاب احادیث الانبیائ‘ باب خلق آدم وذریتہ. وصحیح مسلم‘ کتاب القدر‘باب کیفیۃ خلق الآدمی فی بطن امہ وکتابۃ رزقہ وأجلہ. گفتگو کرتے ہوئے میں نے یہ واضح کیا تھا کہ اس دور میں سب سے بڑا مغالطہ یہ ہوا ہے کہ ’’فَـیَنْفُخُ فِیْہِ الرُّوْحَ‘‘ میں روح کے معنی ’’جان‘‘سمجھ لیے گئے ہیں. یہ اس دَور کی بہت بڑی غلطی بلکہ محجوبیت ہے ‘بایں طور کہ جب عقل پر یہ پردہ پڑا ہو توقرآن مجید کے بہت سے لطیف حقائق سمجھ میں آ ہی نہیں سکتے . اس حوالے سے میں نے عرض کیا تھا کہ روح ایک مستقل علیحدہ تشخص کی حامل شے ہے ‘وہ جان نہیں ہے‘ اس لیے کہ جان کا تعلق تو جسم اور عالم مادی سے ہے اور یہ جان تو حیوانات میں بھی ہے. بلکہ آج ہمیں معلوم ہے کہ عالم نباتات بھی زندگی کی ایک شکل ہے .گھاس کا ایک تنکا بھی جب تک اپنی جڑ کے ساتھ جڑا ہوا ہے زندہ ہے. اس لیے کہ اس کے اندر نشوونما اور افزائش (growth) ہے‘ جو زندگی کی علامت ہے.

اس ضمن میں‘ میں نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ ُکل کی کل ارواحِ انسانیہ‘ حضرت آدم علیہ السلام کی روح سے قیامت تک پیدا ہونے والے آخری انسان کی روح سمیت ‘اس ِعالم مادی کی تخلیق سے بہت پہلے پیدا کی گئی تھیں.ان ارواحِ انسانیہ اور ملائکہ کا مادئہ تخلیق ایک ہی ہے اور وہ ہے ’’نور‘‘. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی حدیث نبویؐ کے الفاظ ہیں: 
خَلَقَ اللّٰہُ الْمَلَائِکَۃَ مِنَ النُّوْرِ ’’اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو نور سے پیدا کیا‘‘. اس ضمن میں ایک مشہور حدیث کا تذکرہ بھی آیا تھا جس کو سند کے اعتبار سے محدثین تو قبول نہیں کرتے لیکن اکثر مفسرین اور متکلمین نے اس کو حدیث تسلیم کیا ہے : اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ ’’پہلی شے اللہ نے جو تخلیق کی وہ میر انور تھا‘‘.یہاں نُــوْرِی سے مراد رُوْحِی ہے‘ یعنی روحِ محمدیؐ وہ نورمحمدیؐ ہے جو بگ بینگ سے بہت پہلے وجود میں آ چکا تھا. بگ بینگ سے تو مادی کائنات (material universe) کا آغاز ہوا‘ جبکہ ارواحِ انسانیہ اور فرشتوں کا تعلق عالم ِمادی اورعالم ِخلق سے نہیں ‘ بلکہ عالم ِامر سے ہے. 

اس اعتبار سے میں نے سورۃ الاعراف کی آیت ۱۷۲ میں مذکور ’’عہد الست‘‘ کا حوالہ بھی دیا تھا : 
اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی ۚۛ شَہِدۡنَا ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں‘ ہم اس پر گواہ ہیں‘‘.اس آیت میں کس قدر اہتمام کے ساتھ فرمایا گیاہے کہ ہم سب نے اس دنیا میںآنے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا تھا. اور عہد لینے کا یہ واقعہ عالم ارواح میں وقوع پذیر ہوا تھا جبکہ انسانی جسم ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے .اب اگر یہی معلوم نہ ہو کہ انسانی ارواح سب کی سب پہلے پیدا کر دی گئی تھیں تو یہ بات کیسے سمجھ میں آئے گی کہ کس سے اور کس وقت یہ عہد لیاگیا تھا؟اسی حوالے سے سورۃ الکہف میں بھی ایک بڑا پیارا جملہ آیا ہے . روزِ قیامت جب پوری نوعِ انسانی اللہ وحدہٗ لا شریک کے سامنے پیش ہوگی‘اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا : لَقَدۡ جِئۡتُمُوۡنَا فُرَادٰی کَمَا خَلَقۡنٰکُمۡ اَوَّلَ مَرَّۃٍ (آیت۴۸’’تحقیق تم آگئے ہوناہمارے پاس جیسے کہ ہم نے تمہیں پیدا کیا تھا پہلی بار‘‘. اب اگر روح کے علیحدہ تشخص ّاورعالم ِاَرواح میں ان ارواح کی تخلیق کو نہ مانا جائے تو اس آیت میں ’’ کَمَا خَلَقۡنٰکُمۡ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ‘ کی تشبیہہ بے معنی ہو جائے گی.
 

حدیث کی تشریح

زیر درس حدیث کے ابتدائی حصہ پر تفصیلی گفتگو چونکہ گزشتہ نشست میں ہو چکی ہے‘ لہٰذا اب ہم اس حدیث کے اگلے حصے کا مطالعہ کرتے ہیں جس کا تعلق ایمان بالقدر یعنی تقدیر پر ایمان سے ہے جو فلسفہ و حکمت دین کے مشکل ترین موضوعات میں سے ایک ہے. 
حدیث کے ابتدائی حصے کے آخری الفاظ یہ تھے: 
ثُمَّ یُرْسَلُ اِلَـیْہِ الْمَلَکُ فَـیَنْفُخُ فِیْہِ الرُّوْحَ ’’پھر اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے ‘ پس وہ اس میں روح پھونک دیتا ہے‘‘. آگے فرمایا: وَیُؤْمَرُ بِاَرْبَعِ کَلِمَاتٍ’’اور اس (فرشتے )کو حکم ملتا ہے چار باتیں لکھنے کا ‘‘ بِکَتْبِ رِزْقِہٖ‘ وَاَجَلِہٖ ‘ وَعَمَلِہٖ ‘ وَشَقِیٌّ اَوْ سَعِیْدٌ ’’اُس کے رزق‘ اُس کی عمر‘ اُس کے اعمال اور اُس کے بدنصیب یا خوش نصیب ہونے کے متعلق لکھنے کا‘‘. فَـوَ اللّٰہِ الَّذِیْ لَا اِلٰــہَ غَیْرُہُ’’تو قسم ہے اس اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے‘‘ اِنَّ اَحَدَکُمْ لَـیَعْمَلُ بِعَمَلِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ حَتّٰی مَا یَکُوْنُ بَیْنَہُ وَبَیْنَھَا اِلاَّ ذِرَاعٌ ’’تم میں سے کوئی شخص جنت والوں کے سے اعمال کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اُس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے‘‘. فَیَسْبِقُ عَلَیْہِ الْکِتَابُ تو اس پرنوشتہ تقدیر غالب آ جاتا ہے‘‘. فَـیَعْمَلُ بِعَمَلِ اَھْلِ النَّارِ‘ فَـیَدْخُلُھَا ’’پس وہ جہنمیوں کے سے عمل کرنے لگتا ہے اور اس میں داخل ہو جاتا ہے‘‘. وَاِنَّ اَحَدَکُمْ لَـیَعْمَلُ بِعَمَلِ اَھْلِ النَّارِحَتّٰی مَا یَـکُوْنُ بَیْنَہُ وَبَیْنَھَا اِلاَّ ذِرَاعٌ ’’اور(کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ) تم میں سے کوئی جہنمیوں کے سے عمل کرتا رہتاہے یہاں تک کہ اُس کے اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے‘‘. فَیَسْبِقُ عَلَیْہِ الْکِتَابُ ’’پھر اس پر نوشتہ تقدیر غالب آ جاتا ہے‘‘. فَیَعْمَلُ بِعَمَلِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ ‘ فَـیَدْخُلُھَا ’’پھر وہ اہل جنت کے سے عمل کرنے لگتا ہے اور اس میں داخل ہو جاتا ہے.‘‘ 

اس حدیث کا جومتن ابھی ہم نے پڑھا ہے ‘ یہ صحیح بخاری سے ہے. یہی حدیث ایک دوسری سند سے متفق علیہ بھی ہے ‘یعنی امام بخاری اور امام مسلم دونوں کا اس پر اتفاق ہے قبل ازیں ہم ’’حدیث جبریل‘‘ کا مطالعہ کر چکے ہیں‘ جس کے کئی متن ہیں اور ہم نے جو متن اس ’’اربعین نووی‘‘ کے حوالے سے پڑھا وہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے. اس کے علاوہ حدیث جبریل حضرت ابوہریرہ‘ حضرت ابن عباس اور حضرت عبداللہ بن عمر رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی مروی ہے. ان روایات میں ترتیب کا ایک فرق بھی ہم نے دیکھا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کا پہلا سوال اسلام اور دوسرا سوال ایمان کے بارے میں ہے ‘لیکن ایک دوسری روایت میں ترتیب الٹی ہے کہ پہلا سوال ایمان اور دوسراسوال اسلام کے بارے میں ہے. اس حوالے سے میں نے آپ کو ابتدا میں بتا دیا تھا کہ احادیث میں اتنا تھوڑا سا فرق ہو جانا کوئی بعید نہیں ہے. اس لیے کہ احادیث قرآن مجید کی طرح لفظاً محفوظ نہیں ہیں‘ البتہ معناً محفوظ ہیں . ظاہر بات ہے کہ اس میں انسان کی صلاحیت کو دخل ہے. اس کی مثال یوں سمجھئے کہ میں جو بات ابھی کہہ رہا ہوں‘ تھوڑی دیر بعد اگر آپ اپنے نوٹس کا آپس میں موازنہ کریں تو آپ کے مابین اختلاف پایا جائے گا. بات بنیادی طور پر سب کی سمجھ میں آگئی ہو گی‘ لیکن جب آپ اس کی تعبیر کریں گے تو فرق ہو جائے گا. اس حد تک احادیث میں بھی فرق ہو 
جانا کوئی بعید نہیں ہے اور نہ ہی یہ ہمارے لیے کوئی تشویش کا باعث ہے. چنانچہ زیر مطالعہ حدیث کے اور بھی متن ہیں جنہیں ہم بعد میں دیکھیں گے . پہلے اس اصل مسئلہ کو سمجھ لیا جائے کہ ایمان بالقدر آخر ہے کیا !