سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ ایمان کیا ہے .حدیث جبریل میں مَا الْاِیْمَانُ کے جواب میں یہ الفاظ آئے ہیں: اَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ‘ وَمَلَائِکَتِہٖ ‘ وَکُتُبِہٖ ‘ وَرُسُلِہٖ ‘ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ‘ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ ’’(ایمان یہ ہے )کہ تو ایمان رکھے اللہ پر ‘ اس کے فرشتوں پر‘ اس کی کتابوں پر ‘ اس کے رسولوں پر‘ آخرت کے دن پر اور اچھی اور بری تقدیر پر‘‘.لہٰذا تقدیر کے خیر و شر پر ایمان لانا ایمان کا جزوِ لازم ہے اور اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ اسے سمجھ میں آنا چاہیے ‘لیکن یہ سمجھ لیجیے کہ جیسے ہم پل صراط کے بارے میں کہتے ہیں کہ بال سے زیادہ باریک اور تلوا رکی دھار سے زیادہ تیزہے ایسا ہی ایمان بالقدر کا معاملہ ہے کہ؏ ’’ہشدار کہ رہ بر دم تیغ است قدم را!‘‘ یعنی ہوشیارہو جاؤ کہ اس وقت تمہارا راستہ تلوا رکی دھار کے اوپر سے ہے.ذرا بھی بے احتیاطی کی تو یہ تلوار کی دھار تمہیں کاٹ کر رکھ دے گی .اس اعتبار سے جب ہم بیان کی کوشش کرتے ہیں تو اِدھر اُدھر پھسل جانے کا امکان ہوتا ہے. خاص طور پر اگر ہم اس معاملے میں بحث میں پڑ جائیںتو پھر یہ بہت بڑے فتنے کی شکل اختیار کرسکتا ہے.