اس حوالے سے ایک حدیث ملاحظہ ہو. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ وہ فرماتے ہیں : خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ وَنَحْنُ نَتَنَازَعُ فِی الْقَدْرِ ’’ایک روز رسول اللہ اپنے حجرے سے برآمد ہوئے اور اس وقت ہم تقدیر کے بارے میں جھگڑ رہے تھے‘‘.یعنی اس وقت ہم تقدیر کے معاملے پر بحث و مباحثہ میں تھے. فَغَضِبَ حَتّٰی اِحْمَرَّ وَجْھُہٗ ’’تو آپؐ غصہ میں آ گئے (اور غصہ بھی اتنا شدیدتھا کہ)آپؐ کا چہرۂ مبارک سرخ ہو گیا ‘‘ کَاَنَّمَا فُقِیَٔ فِیْ وَجْنَتَیْہِ الرُّمَّانُ ’’(ایسے لگ رہا تھا ) جیسے آپ کے گالوں پر سرخ انار کا رس ٹپکا دیا گیا ہے‘‘ .یعنی غصہ کی وجہ سے آپؐ کے گالوں پر اتنی سرخی آ گئی تھی . فَقَالَ: اَبِھٰذَا اُمِرْتُمْ ’’پس آپؐ نے فرمایا:’’کیا تمہیں اس بات کا حکم دیا گیا ہے؟ (کہ تم تقدیر کے بارے میں بحث کرو)‘‘ اَمْ بِھٰذَا اُرْسِلْتُ اِلَیْکُمْ ’’یا کیا میں اس کام کے لیے تمہاری طرف بھیجاگیا ہوں؟‘‘ اِنَّمَا ھَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَـکُمْ حِیْنَ تَنَازَعُوْا فِیْ ھٰذَا الْاَمْرِ ’’جان لو کہ تم سے پہلی اُمتیں ہلاک ہوئیں اس بات پر کہ انہوں نے اس مسئلے پر بحث و مباحثہ کیا‘‘. عَزَمْتُ عَلَیْکُمْ اَنْ لاَّ تَنَازَعُوْا فِیْہِ (۱’’میں تم پر لازم کرتا ہوں کہ اس کے بارے میں آپس میں بحث و مباحثہ مت کرو‘‘. اب آپ میرے وہ تین جملے ذہن میں لایئے جو میں نے کچھ دیر پہلے کہے تھے کہ ایمان بالقدر جب ایمانیات میں داخل ہے تو یہ سمجھ میں تو آ سکتا ہے لیکن بیان میں آنا مشکل ہے‘اور اگر اس پر بحث و مباحثہ ہو جائے تو پھر یہ ایک بڑا فتنہ ہے. 

اس اعتبار سے واقعہ یہ ہے کہ بات کو سمجھنے کے لیے اس معاملے میں تھوڑی سی گفتگو تو ہم کریں گے .دعا ہے کہ مجھے بھی بیان میں اللہ عزوجل کی طرف سے توفیق میسر آ جائے اورکوئی لفظ اِدھر سے اُدھر نہ ہو جائے اور بات بالکل متوازن سامنے آجائے اور آپ کو بھی اس میں انشراحِ صدر اور انشراحِ ذہن حاصل ہو جائے.