میں نے ابتدا میں جو آیات پڑھیں ان میں اوّل سورۃ الاعلیٰ کی ابتدائی آیات ہیں: سَبِّحِ اسۡمَ رَبِّکَ الۡاَعۡلَی ۙ﴿۱﴾ ’’تسبیح کرو اپنے اُس ربّ کے نام کی جو بلند و بالا ہے‘‘. الَّذِیۡ خَلَقَ فَسَوّٰی ۪ۙ﴿۲﴾ ’’جس نے پیدا کیا اور پھر نوک پلک سنواری‘‘. تخلیق اور تسویہ دو الگ الگ مراحل ہیں ‘جس کو آپ اس مثال سے آسانی سے سمجھ سکیں گے کہ کسی عمارت کا ڈھانچہ (structure) ’’تخلیق‘‘ ہے اور اس کی تزئین و آرائش (finishing) ’’تسویہ‘‘ ہے . وَ الَّذِیۡ قَدَّرَ فَہَدٰی ۪ۙ﴿۳﴾ ’’اور وہ کہ جس نے پہلے تقدیر معین کی پھر ہدایت دی‘‘. یہ آیت ہمارے آج کے موضوع ’’ایمان بالقدر‘‘ کے حوالے سے بہت اہم ہے. سب سے پہلے اس لفظ ’’قَدَّرَ‘‘ کو سمجھئے. قدرسے ایک لفظ ’’قدرت‘‘ بنتا ہے جس کے معنی اختیار اور طاقت کے ہیں. ’’قدر‘‘ کے لفظی معنی ہیں: کسی شے کی قدر و قیمت.جب یہ لفظ بطور فعل آئے گا تو اس کے معنی ہوں گے: کسی (۱) سنن الترمذی‘ کتاب المناقب ‘ باب فی فضل النبی . شے کی قدر و قیمت کا تعین کرنا (to evaluate). قرآن مجید میں یہ لفظ ایک سے زائد مرتبہ آیا ہے ‘مثلاً : مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ (الحج:۷۴’’ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہیں جانی جیسے کہ اس کی قدر کا حق تھا‘‘. ہم یہ تو کہہ دیں گے کہ وہ ’’عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْـرٌ‘‘ ہے‘ ہر چیز پر قادر ہے‘ لیکن وہ کتنا قدیر ہے؟یہ ہمارے علم میں نہیں آسکتا.اس لیے کہ ہمارے ذہن کی ترازو گویا سنار کی ترازو کی مانند ہے جس میں تولے اور ماشے تلتے ہیں‘ ٹنوں سریا نہیں تولا جا سکتا. اس حوالے سے نبی آخر الزماںﷺ کی ایک دعا کے الفاظ ملاحظہ ہوں: مَا عَرَفْنَاکَ حَقَّ مَعْرِفَتِکَ ’’اے اللہ! ہم تیری معرفت حاصل نہ کر سکے جیسا کہ تیری معرفت کا حق ہے‘‘ وَمَا عَبَدْنَاکَ حَقَّ عِبَادَتِکَ ’’اور ہم تیری عبادت نہیں کر سکے جیسا کہ تیری عبادت کا حق ہے‘‘.اب دیکھئے کہ یہ حضور فرما رہے ہیں‘ تابہ دیگراں چہ رسد! میں اور آپ کس گنتی میں آئیں گے! اسی حوالے سے ایک بڑا عمدہ نکتہ ملاحظہ ہو کہ میدانِ حشر کے بارے میں رسول اللہ نے فرمایا: لِوَائُ الْحَمْدِ یَوْمَئِذٍ بِیَدِیْ (۱’’اُس دن اللہ کی حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہو گا‘‘.حضور کا نام محمد بھی ہے‘ احمد بھی ہے‘ حامد بھی ہے‘ محمود بھی ہے. یعنی یہ سارا معاملہ حمد کے گرد ہی گھومتا ہے ‘تو اس اعتبارسے قیامت کے دن دربارِ الٰہی میں اللہ کی حمد کا جھنڈا بھی رسول اللہ کے پاس ہو گا . اب وہ دربارِ الٰہی کیا ہو گا‘ یہ تو ہم سمجھ نہیں سکتے ‘البتہ کبھی امیر خسرو نے کہا تھا ؎

خدا خود میر محفل بود اندر لا مکاں خسرو
محمدؐ شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم!