لفظ ’’قدر‘‘ کے حوالے سے جیسا کہ میں نے آپ کو بتا یا کہ اس سے ایک تو لفظ ’’قدرت‘‘ بنا ہے اور ایک کسی شے کی قدر و قیمت .کسی شے کا اندازہ مقرر کر دینا بھی قدر ہے. اللہ تعالیٰ نے بھی ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے . مشکوٰۃ شریف میں ’’کتاب (۱) سنن الترمذی‘ کتاب المناقب ‘ باب فی فضل النبی . الایمان‘‘ کا ایک پورا باب ’’باب الایمان بالقدر‘‘ کے عنوان سے ہے ‘ اور اس کی پہلی حدیث مسلم شریف کی روایت ہے جو حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہماسے مروی ہے. حضرت عمروؓ بن العاص سردارانِ قریش میں سے تھے. آپؓ ایک بڑے سیاست دان اور بڑے بہادر انسان تھے‘ ان کے بیٹے عبداللہؓ سے یہ روایت مروی ہے اس حوالے سے بڑی دلچسپی کی بات یہ ہے کہ باپ اور بیٹے کے مزاج میں ُبعد المشرقین تھا‘ بایں طور کہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ جنگجو‘ سیاست دان اور بڑے سرداروں میں سے تھے جبکہ حضرت عبداللہ انتہائی زاہد اور عابد تھے. ان کے بارے میں آتا ہے کہ یہ پوری پوری رات نوافل پڑھتے اور ہر روز روزہ رکھتے تھے . جب رسول اللہ کو ان کے اس معمول کاپتا چلا تو آپ نے انہیں بلا کر فرمایا: یَا عَبْدَ اللّٰہِ اََ لَمْ اُخْبَرْ اَنَّکَ تَصُوْمُ النَّھَارَ وَتَقُوْمُ اللَّیْلََ ’’اے عبداللہ! مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم ہر روز روزہ رکھتے ہواور پوری پوری رات (نفل میں) قیام کرتے ہو!‘‘ آپؓ نے کہا: بَلٰی یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ’’جی ہاں‘ یارسول اللہ‘‘. آپ نے فرمایا: فَلَا تَفْعَلْ… (۱’’ایسا مت کیاکرو‘‘ یہی عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما صحیح مسلم کی اس حدیث کے راوی ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا: کَتَبَ اللّٰہُ مَقَادِیْرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ اَنْ یَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ بِخَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ (۲’’اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی مقداریں اور تقدیریں لکھ دی تھیں آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال قبل‘‘.یہ ہے قدریا تقدیر. یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا اندازہ ہزاروں سال پہلے مقرر کر دیا تھا.