لفظ ’’کتاب‘‘ سے مراد اللہ کا علم قدیم ہے!

زیر مطالعہ حدیث میں فَیَسْبِقُ عَلَیْہِ الْکِتَابُ کے الفاظ آئے ہیں. یہاں ’’کتاب‘‘ سے مراد کیا ہے ؟اس حوالے سے سورۃ الحدید کی آیت ۲۲ ملاحظہ ہوجومیں نے خطاب کے آغاز میں پڑھی تھی : مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِیۡۤ (۱) صحیح البخاری‘ کتاب النکاح‘ باب لزوجک علیک حق.

(۲) صحیح مسلم‘ کتاب القدر‘ باب حجاج آدم و موسیٰ علیہما السلام. 
اَنۡفُسِکُمۡ ’’نہیں پڑتی کوئی مصیبت نہ زمین میں اور نہ تمہاری جانوں میں‘‘. زمین پر سیلاب اور زلزلے جیسے حوادث کا آجانا‘اسی طرح تمہاری جان میں کسی تکلیف کا آجانا‘مثلاً ٹھیک ٹھاک تھے ‘کوئی معمولی سی تکلیف ہوئی تو چیک اپ سے معلوم ہوا کہ کینسر ہے اور وہ بھی کافی بڑھ چکا ہے یااسی طرح کی کوئی اور تکلیف یا مصیبت اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّبۡرَاَہَا ؕ ’’مگروہ ایک کتاب میں لکھی ہوئی موجود ہے اس سے پہلے کہ ہم اسے ظاہر کر دیں‘‘. اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ ﴿ۚۖ۲۲﴾ ’’ (یہ تمہیں مشکل نظر آئے گا مگر) یقینا یہ اللہ پربہت آسان ہے‘‘. اس آیت میں تقدیر کے حوالے سے ’’کتاب‘‘ کا لفظ آیاہے‘ اسی طرح قرآن مجید میں اوربھی کئی مقامات پر کتاب کالفظ آیا ہے تواس کتاب سے مراد اللہ تعالیٰ کا علم قدیم ہے جس میں سب کچھ ہمیشہ سے موجود اور لکھا ہوا ہے اور اس میں سے کچھ بھی غلط نہیں ہو سکتا.

یہاں ایک بات جان لیجیے کہ اللہ تعالیٰ کا علم قدیم ہے ‘حادث نہیں ہے.بعض گمراہ فرقوں کا عقیدہ یہ ہے کہ کوئی شے جب ظہور پذیر ہوتی ہے تو اللہ کے علم میں آتی ہے . اسے ’’بدع‘‘ کہتے ہیں . معاذ اللہ‘ ثم معاذ اللہ‘ یہ شانِ خداوندی سے بہت بعید ہے. وہ تو ِعالم ما کان وما یکون ہے. جو بھی کچھ تھا‘ یا آج تک رہا ہے اور جو بھی کچھ ہو گا وہ سب کچھ اس کے علم میں ’’آنِ واحد‘‘ میں موجود ہے. 

آنِ واحد کے لفظ کو میرے ایک تجربے کے حوالے سے اچھی طرح سمجھ لیجیے. ۶۸.۱۹۶۷ء میں‘ میں نے پہلا ہوائی سفر لاہور سے کراچی کا کیا تھا. اُس وقت فوکر فرینڈشپ چلا کرتا تھا جو ایک چھوٹا سا طیارہ تھا جو زیادہ بلندی پر نہیں جاتاتھا. میں اس سفر کے دوران کھڑکی سے دیکھتا جاتا تھا کہ اس وقت ہم کہاں پہنچ گئے ہیں اور اب جو روشنیاں نظر آ رہی ہیں یہ کس شہر کی ہیں. اوکاڑہ‘ ساہیوال اور کچھ دوسرے شہر گزرنے کے بعد ایک دم میں نے لودھراں ‘ بہاولپوراور سمہ سٹہ کی روشنیاں بیک وقت دیکھیں. تب مجھے یہ خیال آیا کہ جب میں ٹرین کے ذریعے کراچی جاتاہوں تو لودھراں پہنچ کر میں سمجھتا ہوں کہ ابھی بہاولپور آدھ گھنٹے بعد آئے گا ‘اس طرح وہ میرے لیے مستقبل کی 
شے ہے اور جب میں بہاولپور پہنچتا ہوں تو لودھراں میرے لیے ماضی بن جاتا ہے اورآدھے گھنٹے کے بعد آنے والا سمہ سٹہ میرے لیے مستقبل بن جاتا ہے. یعنی ایک وقت میں ایک ماضی ہوتا ہے اور دوسرا مستقبل‘ لیکن فوکر کی اس تھوڑی سی بلندی پر میں بیک وقت لودھراں‘ بہاولپور اور سمہ سٹہ دیکھ رہا ہوں. اب اس بلندی کو اربوں کھربوں سے ضرب دے دیجیے کہ اللہ تعالیٰ اس بلند مقام سے دیکھ رہا ہے جہاںاُس کے مشاہدے اور علم میں ماضی اور مستقبل کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا .یہ ہے آنِ واحد کا مطلب.اس کے لیے قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر ’’کتاب‘‘ کا لفظ آیا ہے. یہ درحقیقت اللہ کا علم قدیم ہے جس میں سب کچھ ہمیشہ سے لکھا ہوا موجود ہے‘ جو پورا ہو کر رہتا ہے. عقائد کے حوالے سے ہم اسے ’’تقدیر‘‘ کہتے ہیں.