تقدیر کے دو پہلو ہیں .ایک پہلو ’’مَا اَصَابَ عَلَی الْاِنْسَانِ‘‘ سے متعلق ہے کہ جو مصیبت انسان پر آتی ہے وہ علمِ الٰہی میں ہمیشہ سے ہے. جیسے میں نے ابھی سورۃ الحدید کی آیت پڑھی : مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ ’’نہیں پڑتی تم پر کوئی مصیبت نہ زمین میں اور نہ تمہاری جانوں میں مگر وہ لکھی ہوئی ہوتی ہے‘‘.اس حوالے سے ایک حدیث ملاحظہ ہو جو جناب ابن الدیلمی تابعی رحمہ اللہ علیہ سے مروی ہے .یہ ایک طویل حدیث ہے اور اس کا آخری حصہ کچھ یوں ہے: وَتَعْلَمَ اَنَّ مَا اَصَابَکَ لَمْ یَـکُنْ لِیُخْطِئَکَ ’’اورتو جان لے اس بات کو کہ جو چیز تم پر آئی ہے وہ ہرگز ٹلنے والی نہیں تھی‘‘. یعنی تم کوئی تدبیر بھی کر لیتے ‘ کوئی قدم بھی اٹھا لیتے‘تب بھی وہ تو آنی ہی آنی تھی. وَاَنَّ مَا اَخْطَاَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُصِیْبَکَ ’’اور جو چیز تم سے چھوٹ گئی وہ تم کو کسی صورت نہیں ملنی تھی‘‘.مثلاً کسی نوکری کا اشتہار آیا ‘آپ نے بھی درخواست دی لیکن وہ نوکری آپ کو نہیں ملی تو آپ نے سوچاکہ کاش میں نے فلاں سے سفارش کرالی ہوتی تو یہ نوکری مجھے مل جاتی. ہرگز نہیں‘ جو چیز چھوٹ گئی ہے وہ چھوٹ ہی جانی تھی. اس میں قطعاً کوئی تدبیر‘ کوئی سفارش‘ کوئی حیلہ کارگر نہیں ہو سکتا تھا.آخر میں رسول اللہ نے فرمایا: وَلَوْ مُتَّ عَلٰی غَیْرِ ھٰذَا لَدَخَلْتَ النَّارَ (۱’’اوراگر تمہاری اس کے سوا کسی اور کیفیت (عقیدہ)پرموت واقع ہو گئی تو سیدھے جہنم میں جاؤ گے‘‘. یہ ہے تقدیر کا وہ مفہوم جس کا تعلق ’’ مَا اَصَابَ عَلَی الْاِنْسَانِ‘‘ سے ہے.یعنی جو کچھ انسان کے اوپر وارد ہو رہا ہے اس کے ضمن میں تقدیر کا مفہوم یہ ہے کہ جو ہوا ہے وہ تو ہونا ہی تھا ‘ اس میں تو کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں. یہ تواللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے .لیکن جب انسان کی سوچ کے برعکس کچھ ہوتا ہے تو وہ سوچتا ہے کہ کاش اگر میں یوں کر لیتا تو یہ نہ ہوتا‘ بس یہی سوچ ایمان بالقدر کے منافی ہے. اس لیے کہ جو ہوا ہے وہ تو اللہ تعالیٰ کے علم قدیم میں پہلے سے طے تھا اور اسے تو ہونا ہی تھا‘ تمہاری کوئی تدبیر اس میں کارآمد نہیں ہونی تھی. چنانچہ حدیث میں الفاظ آئے ہیں: وَاِنْ اَصَابَکَ شَیْئٌ فَلَا تَقُلْ لَـوْ اَنِّیْ فَعَلْتُ کَانَ کَذَا وَکَذَا وَلٰکِنْ قُلْ قَدَّرَ اللّٰہُ وَمَا شَائَ فَعَلَ فَاِنَّ لَـوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّیْطَانِ (۲’’اور اگر تم پر کوئی مصیبت واقع ہو جائے تو یہ نہ کہو کہ کاش میں ایسا ایسا کر لیتا بلکہ تم کہو کہ یہ تواللہ نے میرے لیے مقدر کیا تھا اور وہ جو چاہتا ہے کرتاہے‘ اس لیے کہ لفظ ’’لَـوْ‘‘ (کاش) سے شیطانی عمل کا دروازہ کھل جاتا ہے.‘‘

تقدیر کا دوسرا پہلو 
’’مَا یَفْعَلُ الْاِنْسَانُ‘‘ سے متعلق ہے.یہاں آ کر تقدیر کا مسئلہ بہت ٹیڑھا ہو جاتا ہے کہ آیا اعمال و افعال کے حوالے سے انسان کے پاس کوئی اختیار ہے کہ نہیں؟ (Do I have any free choice?) یا ہر شے پہلے سے طے شدہ ہے؟ اس حوالے سے بعض روایات بھی ہیں جو اس کی تائید کرتی ہیں کہ ہر چیز پہلے سے طے شدہ ہے ‘ لکھی ہوئی ہے . اربعین نووی کی زیر درس حدیث گویا اس کی مثال ہے کہ ہر چیز پہلے سے لکھ دی گئی ہے اور رحم مادر ہی میں لکھ دیا گیا تھا کہ یہ بدبخت ہے یا سعادت مند. اب ایک شخص ساری عمر نیکی کے کام کرتا رہا اور آخری وقت میں آ کر کوئی ایسا حادثہ پیش آگیا کہ اس نے اہل جہنم کے سے کام شروع کردیے اور وہ جہنمی ہو گیا. یا ایک شخص (۱) سنن ابی داوٗد‘ کتاب السنۃ‘ باب فی القدر.

(۲) صحیح مسلم‘ کتاب القدر‘ باب فی الامر بالقوۃ وترک العجز والاستعانۃ باللّٰہ. 
ساری عمر جہنمیوں کے سے کام کرتا رہا اور آخری وقت میں آ کر کوئی ایسی توفیق ملی ‘ کوئی ایسا معاملہ ہو گیا کہ توبہ کر لی اور اہل جنت کے سے اعمال شروع کر دیے اور اس طرح وہ جنتی ہو گیا تقدیر کا یہ دوسرا پہلو کہ انسان جو کچھ کرتا ہے اس میں اس کی قدرت کس قدر ہے‘ یہ ہمارے ہاں فلسفہ کا بڑا مشکل موضوع ہے او راسی کا نام ’’جبر و قدر‘‘ ہے.