انسان اپنے افعال میں نہ مجبورِ محض ہے اور نہ قادرِ مطلق

ہمارے ہاں ایک گروہ ان لوگوں کا ہے جو اس پر قناعت کرتے ہیں جو اللہ اور اُس کے رسول نے کہہ دیا ‘ اس سے آگے مین میخ نہیں نکالتے . یہ لوگ محفوظ راستے پر ہیں. لیکن بہرحال انسان کو اللہ نے عقل بھی دی ہے اور یہ عقل سوالات اٹھاتی ہے اور زیادہ ذہین انسان سوچتے ہیں‘ غور و فکر کرتے ہیں‘ بات سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں. اس اعتبار سے ہمارے ہاں د و طبقے ہو گئے‘ جبریہ اور قدریہ. جبریہ فرقے کا نقطہ نظر یہ ہے کہ انسان مجبور محض ہے اور اسے کوئی اختیار حاصل نہیں‘جبکہ دوسرا نقطہ نظر اس کے بالکل برعکس ہے کہ انسان قادر مطلق ہے .اور جو چاہتا ہے کرتا ہے ‘وہ اپنے فیصلے میں مختار مطلق ہے ‘اس نقطہ نظر کے حاملین کو قدریہ کہا جاتا ہے. اس ضمن میں علامہ اقبال کا یہ شعر مجھے شعر ہونے کے اعتبار سے بہت خوبصورت لگتا ہے 

؎
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مؤمن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند!

اس شعر میں انسان سے ہر قسم کی پابندی کی نفی کر دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ صرف اللہ کے احکام کا پابند ہے. نتیجہ کے اعتبار سے یہ بات صحیح ہے کہ پابندی اصل میں اللہ کے احکام کی ہے ‘لیکن تقدیر کی پابندی سے بھی انسان پوری طرح آزاد نہیں ہے. یہ سمجھ لینا کہ تقدیر کی پابندی صرف نباتات و جمادات ہی کا معاملہ ہے‘ مبالغہ ہے‘ اور ظاہر بات ہے کہ کوئی شاعر ‘چاہے وہ علامہ اقبال ہی ہو‘ مبالغے سے نہیں بچ سکتا. سورۃ الشعراء میں عام شعراء کی جو صفات بیان ہوئی ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ وہ مبالغہ کرتے ہیں: 

وَ الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُہُمُ الۡغَاوٗنَ ﴿۲۲۴﴾ؕاَلَمۡ تَرَ اَنَّہُمۡ فِیۡ کُلِّ وَادٍ یَّہِیۡمُوۡنَ ﴿۲۲۵﴾ۙ 
وَ اَنَّہُمۡ یَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا یَفۡعَلُوۡنَ ﴿۲۲۶﴾ۙ 
’’اور شاعروں کی پیروی توگمراہ لوگ کیا کرتے ہیں. کیا تم نے نہیں دیکھا کہ وہ ہر وادی میں سرگرداں پھرتے ہیں اور کہتے وہ کچھ ہیں جو کرتے نہیں ہیں.‘‘

یہ بات علامہ اقبال پر بھی چسپاں ہوتی ہے ‘اس لیے کہ ان کا فکر جتنا بلند تھا ان کا عمل اس کے اعتبار سے بہت ہی نیچے اور بہت ہی کم تھا.بہرحال اس شعر میں انہوں نے جو بات کہی ہے وہ صحیح نہیں ہے‘ اس لیے کہ انسان بہت سے اعتبارات سے مجبور ہے. سب سے پہلے انسان کے اندر ایک ’’تقدیر نوعی‘‘ ہے.ایک چھوٹی سی چڑیا اڑتی پھرتی ہے لیکن انسان نہیں اُڑ سکتا. یہ ٹھیک ہے کہ انسان نے جہاز ایجاد کر لیا جو پانچ پانچ سو آدمی اور سینکڑوں من سامان لے کر اڑتاہے لیکن انسان خود تو نہیں اڑ سکتا. یہ تقدیر نوعی ہے. اللہ تعالیٰ نے ہرنوع 
(species) کے لیے ایک اندازہ مقرر کر دیا ہے اور وہ اس اندازے میں ہی رہے گا‘ اس سے باہر نہیں جا سکتا.

اس کے علاوہ انسان میں ایک ’’تقدیر شخصی‘‘ ہے . بعض اوصاف و صفات انسان کو وراثتاً ملتے ہیں‘ جن کے بارے میں اس کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے. یہ بات پہلے بھی مانی جاتی تھی اور آج سائنسی انداز میں اسے یوں کہا جا تا ہے کہ یہ چیز آپ کے جینز 
(genes) میں ہے اور جینز کو کوئی بدل نہیں سکتا . جو اوصاف و صفات آپ کو اپنے والدین کی طرف سے ملتے ہیں وہ آپ کی شخصیت کو فیصلہ کن طرز پر ڈھال دیتے ہیں.اب یہ جینز بھی ایک طرح کی پابندی ہے. دوسرے یہ کہ خاص طور پر ماں کی گود اور گھر کے ابتدائی ماحول کے جو اثرات انسانی شخصیت کے اوپر مرتسم ہوتے ہیں وہ بھی بڑے مستقل اور پختہ ہوتے ہیں. ان دونوں چیزوں یعنی نوع اور شخصیت کو آپس میں ضرب دے لیجیے تو اس سے ایک شے تیار ہوتی ہے جس کو قرآن ’’شاکلہ‘‘ کہتا ہے : قُلۡ کُلٌّ یَّعۡمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ ؕ فَرَبُّکُمۡ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ہُوَ اَہۡدٰی سَبِیۡلًا ﴿٪۸۴﴾ (بنی اسرائیل) ’’کہہ دو کہ ہر شخص اپنے شاکلہ کے مطابق عمل کرتا ہے. سو تمہارا پروردگار اس شخص سے خوب واقف ہے جو سب سے زیادہ سیدھے راستے پر ہے‘‘.شاکلہ کہتے ہیں شکل دینے والی شے کو .مثلاً آپ نے لوہا ڈھال کر کوئی خاص پرزہ بنانا ہے تو سب سے پہلے آپ کو اس کا سانچہ (pattern) بنانا پڑے گا‘ پھر لوہے کو پگھلا کر اس میں ڈالیں گے تو جیسا سانچہ ہوگا لوہا ویسی ہی شکل اختیار کرے گا .اسے شاکلہ کہتے ہیں. یہ شاکلہ ہر انسان کا مختلف ہے اور انسان اس سے باہر نہیں جا سکتا‘ اس کے اندر اندر ہی اس کی جدوجہد (struggle) ہو گی.لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کو کوئی اختیار (free choice) حاصل نہیں ہے. آپ کو اختیار حاصل ہے‘ لیکن وہ اختیار اپنی حدود کے اندر کام کرے گا‘ اس سے باہر نہیں جا سکتا. 

اس بات کو مختلف احادیث میں حضور نے بہت خوبصورتی سے بیان کیا ہے. ایک حدیث بڑی اہم ہے . حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: 
اَلنَّاسُ مَعَادِنٌ ’’انسان معدنیات کی طرح ہیں‘‘.آپ جانتے ہیں کہ معدنیات میں سے جس کچ دھات (ore) کو صاف کر لیا جائے وہی دھات خالص شکل میں حاصل ہوجاتی ہے. ظاہر ہے کہ سونے کی ore سے سونا بنے گا اور چاندی کی ore سے چاندی ہی بنے گی ‘سونا تو نہیں بن سکتا‘اسے جتنا چاہیں صاف کر لیں.اس اعتبار سے نبی اکرم نے فرمایا: اَلنَّاسُ مَعَادِنٌ ’’انسان بھی معدنیات کی طرح ہیں‘‘ . یعنی ان کی ore بھی مستقل بالذات ہے. آگے فرمایا: خِیَارُھُمْ فِی الْجَاھِلِیَّۃِ خِیَارُھُمْ فِی الْاِسْلَامِ اِذَا فَقِھُوْا (۱’’ ان میں جوجاہلیت کے دور میں بہترین تھے وہی اسلام میں بھی بہترین ہیں جبکہ ان کے اندر دین کا فہم آ جائے‘‘.یعنی اگر دورِجاہلیت میں وہ ore سونے کی تھی تو اسلام نے اسے صاف کرکے خالص سونا بنا دیا اور اگر وہ چاندی کی ore تھی اور اسلام نے اس کو صاف کر دیا تو وہ نکھرتی ہوئی‘ چمکتی ہوئی چاندی بن گئی. البتہ اس میں ایک اضافہ کیا حضور نے کہ ایسا تب ہو گا جب ان کے اندر دین کا فہم داخل ہو جائے . اب آپ دیکھیں کہ اسلام لانے سے پہلے بھی بہترین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے اور اسلام لانے کے بعد بھی بہترین حضرت ابوبکرؓ (۱) صحیح البخاری‘ کتاب المناقب‘ باب قول اللہ تعالی: یٰٓــاَیـُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰــکُمْ مِنْ ذَکَرٍ... ہی ہیں. حضور کو نبوت ملنے سے پہلے بھی بہترین خاتون حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہاتھیں اور آپؐ کی نبوت پر ایمان لانے کے بعد بھی بہترین خاتون حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ ہی ہیں. 

اس ضمن میں ایک اور حدیث حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ‘وہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک روز حضور کے پاس تھے اور ہم سوچ رہے تھے کہ دنیا میں کیا کیا پیش آنے والا ہے . اس دوران حضور نے ہم سے ایک بات کہی: 
اِذَا سَمِعْتُمْ بِجَبَلٍ زَالَ عَنْ مَکَانِہٖ فَصَدِّقُوْا ’’اگر تم یہ سنو کہ کوئی پہاڑ اپنی جگہ سے ہل گیا ہے تو مان لینا‘‘. وَاِذَا سَمِعْتُمْ بِرَجُلٍ تَغَـیَّرَ عَنْ خَلْقِہٖ فَلَا تُصَدِّقُوْا (۱’’اور اگر تم سنو کہ کوئی شخص اپنی جبلت سے بدل گیاہے‘ تو کبھی نہ ماننا.‘‘