ایمان بالقدر کی اہمیت کے حوالے سے ایک اور حدیث ملاحظہ کیجیے کہ تقدیر پر ایمان کس قدر لازم ہے. ایک تابعی جناب ابن دیلمی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے دل میں تقدیر کے بارے میں کچھ وسوسے پیدا ہوئے تو میں نے اس کے بارے میں جاننے کے لیے جو بھی کبار صحابہؓ اس وقت بقید حیات تھے‘ ان سب سے ملاقات کی.سب سے پہلے میں حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس گیا(جن کے بارے میں حضور نے فرمایا ہے:’’میرے صحابہؓ میں قرآن کا سب سے بڑا عالم اُبی بن کعب ہے.‘‘) ان کے علاوہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس گیا (جو اربعین نووی کی زیر درس حدیث کے راوی ہیں اور فقہاء صحابہ میں سے ہیں.)پھرمیں حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہاور آخر میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس گیا. ان سب نے درج ذیل بات کہی‘ جبکہ زید بن ثابتؓ نے اس بات کو مرفوعاً نقل کیا‘ یعنی یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں بیان کر رہا بلکہ یہ نبی اکرم کا فرمان ہے : لَـوْ اَنَّ اللّٰہَ عَذَّبَ اَھْلَ سَمَاوَاتِہٖ وَاَھْلَ اَرْضِہٖ عَذَّبَھُمْ وَھُوَ غَیْرُ ظَالِمٍ لَھُمْ ’’اللہ تعالیٰ اگر تمام آسمان والوں اور تمام زمین والوں کو عذاب دینا چاہے تو وہ عذاب دے سکتا ہے‘ بغیر اس کے کہ ہم کہیں کہ وہ ظالم (۱) مسند احمد‘ کتاب من مسند القبائل‘ باب من حدیث ابی الدرداء عویمر‘ ح۲۶۲۲۷ہے‘‘. ظاہر ہے تمام زمین والوں اور آسمان والوں میں نیکوکار بھی آ گئے. یہ اصل میں ایک بڑا اہم مسئلہ ہے جو اہل سنت والجماعت اور معتزلہ کے درمیان مختلف فیہ ہے. معتزلہ کے طرز پر اہل تشیع کا بھی عقیدہ یہ ہے کہ اللہ پر عدل واجب ہے‘ جبکہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک اللہ پر کوئی شے واجب نہیں ہے. اللہ کا اختیار مطلق ہے‘وہ جو چاہے کرے. چنانچہ وہ جب چاہے کسی ظالم کو معاف کر سکتا ہے اورجب چاہے کسی نیک آدمی کو عذاب دے سکتا ہے : َیَغۡفِرُ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۲۸۴﴾ (البقرۃ) ’’پھروہ بخش دے گا جس کو چاہے گا اور عذاب دے گا جس کو چاہے گا. اور وہ ہر چیز پر قادر ہے.‘‘

آگے رسول اللہ نے فرمایا: 
وَلَــوْ رَحِمَھُمْ کَانَتْ رَحْمَتُہٗ خَیْرًا لَـھُمْ مِنْ اَعْمَالِھِمْ ’’اور اگر اللہ ان (تمام آسمان والوں اور تمام زمین والوں) پر رحم کرے تو اُس کی رحمت یقینا لوگوں کے اعمال سے بہت بالا ہے‘‘. یعنی اس کی رحمت بہت بلند و برتر ہے‘ وہ جو چاہے کرے. وہ اگر ابوجہل کو بخش دے یاکسی انتہائی نیک شخص کو عذاب دے تو کون اعتراض کر سکتا ہے؟ آگے فرمایا: وَلَوْ اَنْفَقْتَ مِثْلَ اُحُدٍ ذَھَبًا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَا قَبِلَہُ اللّٰہُ مِنْکَ حَتّٰی تُـؤْمِنَ بِالْقَدَرِ ’’اوراگر تم اُحد پہاڑ کے برابر سونا اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو اللہ تعالیٰ اسے قبول نہیں کرے گا جب تک کہ تم تقدیر پر ایمان نہیں رکھو گے‘‘.حدیث کے آخری حصہ کا ذکر ماقبل بھی ہو چکا ہے. وَتَعْلَمَ اَنَّ مَا اَصَابَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُخْطِئَکَ ’’اور تم جان لو کہ جو چیز (مصیبت یا تکلیف) تم پر واقع ہوئی ہے وہ ٹلنے والی تھی ہی نہیں‘‘.یعنی وہ تو اللہ تعالیٰ کے علم قدیم کے اندر پہلے سے لکھی ہوئی موجود تھی اور وہ تو آنی ہی آنی تھی. وَاَنَّ مَا اَخْطَاَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُصِیْبَکَ ’ ’اور جو چیز تم سے چھوٹ گئی وہ تمہیں ملنی ہی نہیں تھی‘‘.آخر میں فرمایا: وَلَوْ مُتَّ عَلٰی غَیْرِ ھٰذَا لَدَخَلْتَ النَّارَ (۱’’اور اگر اس عقیدے کے سوا کسی اور پر تمہاری موت واقع ہوئی تو تم جہنم میں داخل ہو گے‘‘.یہ ہے ایمان بالقدر کی اہمیت. (۱) سنن ابی داوٗد‘ کتاب السنۃ‘ باب فی القدر.