اب میں تقدیر کے اس مشکل مسئلہ کو انگریزی کی دو اصطلاحات کے حوالے سے واضح کروں گا. ایک ہے preknowledge یعنی کسی چیز کا پہلے سے علم ہونااور ایک ہے predetermination یعنی کسی شے کا پہلے سے طے پاجانا. ان دونوں میں خلط مبحث نہیں کرنا چاہیے. اللہ کے علم قدیم کو جبر مستلزم نہیں ہے ‘بایں معنی کہ اس کے علم میں ہے کہ آپ یہ کام کریں گے تواس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ آپ وہ کام اس کے جبر کے تحت کررہے ہیں. میں اس کی ایک سادہ سی مثال دیا کرتا ہوں. آپ کسی بچے کے سامنے کوئی کھلونا رکھتے ہیں تو آپ کو تقریباً سوفیصد یقین ہو تاہے کہ وہ اس کھلونے کی طرف متوجہ ہو گا ‘اسے اٹھائے گا ‘لیکن ہو سکتا ہے کہ بچہ اُس وقت کسی اور دھن میں ہو اور وہ اس کھلونے کی طرف توجہ نہ کرے. اوراگر وہ اسے اُٹھا بھی لیتا ہے تو اُس نے آپ کے مجبور کرنے سے نہیں اٹھایابلکہ اس نے اپنے ارادے اور اختیار سے اٹھایا ہے. لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا جو اندازہ مقرر کیا ہوا ہے وہ اندازہ (جسے تقدیر کہا جاتا ہے) اللہ کا علم قدیم ہے جو کبھی غلط ثابت نہیں ہو سکتا‘ اس لیے کہ وہ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْم ہے. اب اگر preknowledge اور predetermination کے اندر فرق کر لیا جائے تو معاملہ سمجھ میں آجائے گا کہ انسان اپنے افعال میں مجبور نہیں ہے. یعنی اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق جو چیز لکھ دی گئی ہے وہ تو ہو کر رہے گی‘ لیکن اُس کے کرنے میں آپ پر کوئی جبرنہیں ہے.